Saturday, November 26, 2011

                            کچھ اپنے بارے میں
               میرانامرشید احمد ا وروالد  کا نام پروفیسر فضل معبود ہے۔ہمارے گاوں کانام برہ بانڈی ہےیہ سوات کے علاقہ نیک پی خیل تحصیل کبل میں واقع ہے۔ہمارا گاوں پہاڑوں کے دامن میں واقع ہے یہاں سےایک بڑی سڑک گزرتی ہےجو  مٹہ کی طرف جاتی ہے اورشور،گٹ پیوچار،سخرہ اور بیہا کی طرف جاتی ہے۔یہ علاقہ تاریخی اور جغرافیایی  طور پر بھی بہت اہم رہا ہے۔
     میرے دادا کا نام شاہ حیدر تھا ۔وہ ۱۹۴۸ میں کشمیر کے جنگ میں بھی شریک ہویئے تھے اور اس دور کے واقعات ہمیں سناتے تھے ۔وہ اس غزا میں شرکت کیلئے پیدل سوات سے گیے تھے اور لڑتے ہویئے سرینگر تک جا پہنچے تھے واپس بھی اسی راستے سے پیدل ایے تھے۔میرے دادا سوات کے فوج یا دوسرے لفظون میں لشکر میں صوبیدار میجر تھے ۔والی سوات ک  ان پر اعتماد کا یہ حال تھا کہ انکی ملازمت سے سبکدوشی کے بعد بھی انکا عہدہ خالی رہا اور ریاست سوات کے خاتمے تک انہوں نے کسی اور کو یہ عہدہ تفویض نہیں کیا۔اپنے خاندان کے بارے مین تفصیل سے میں اپنے دوسرے کتاب "زندگی کی شاہراہ پر " میں لکھوں گا
 میرے والد صاحب مانسہرہ کے پوسٹ گریجویٹ کالج سے پرنسپل کی حیثیت میں ریٹایئرد ہوگیے تھے۔انہوں نے ولانووا یونیورسٹی کیلیفورنیا (یو ایس اے) سے سیاسیات مین تعلیم حاصل کی ہے۔
                میں نے ابتدایی تعلیم اپنے گاوں کے سکول میں حاصل کی جو کہ ایک قسم کا خانہ بدوش سکول تھا کبھی مسجد اور کبھی حجرے میں ۔پہلی دو جماعتیں ہم نے اسی طرح گھوم گھوم کر گزاریں تھیں۔ٍسوات ریاست تھا جو کہ پاکستان کے بننے سے پہلے  قایم ہوگیا تھا۔
   میں نے ابتدایی تعلیم گاوں کے سکول سے حاصل کی ۔اسکے بعد گورنمنٹ ھایی سکول ڈھیری سے میٹرک پاس کیا۔اور ایٖف ایس سی گورنمنٹ ڈگری کالج مٹہ سے پا س کیا۔بی ایس سی میں نے  گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ جھانذیب کالج سے پاس کیا ۔اور ایم ایس سی کی ڈگری گومل یونیورسٹی سےحاصل کی لی۔
               اسکے بعد ریڈیو پاکستان سے بطور پروڈیوسر  منسلک ہوگیا ۔ٗ میں نے ریڈیو پروگرام کے سارے اصناف اور سارے شعبوں میں کام کیا ہے۔ڈرامہ،موسیقی،تقاریر ،دستاویزی پروگرام،فیچر،کرنٹ افیرز( حالات حاضرہ ) کے پروگرام،مذہبی پروگرام،دیہاتی بھاییوں کیلیے پروگرام ،غرض جتنے بھی فارمیٹ ہیں سب پر کام کیا ہے۔میں نے ریڈیو پاکستان پشاور ،تربت،ایبٹ اباد،اور کرنٹ افیرز چینل اسلام اباد میں بھی خدمات انجام دی ہیں۔اور دو سال کیلے (۲۰۰۷ سے ۲۰۰۹)بیجینگ میں چاینا ریڈیو انٹر نیشنل  بیجینگ میں اپنے فرایئض سر انجام دیتا رہا  ہوں۔اور اجکل این بی ایس اسلام باد میں بحیثیت پروگرام مینیجر خدمات سر انجام دے رہا ہوں

my book پریوں کے دیس میں

پریوں کے دیس میں
(۲۰۰۷تا۲۰۰۹)
چین جو میں نے دیکھا





جملہ حقوق  بحق مصنّف محفوظ ہیں
نام کتاب ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پریوں کے دیس میں
 مصنف۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رشید احمد
 سال طباعت ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 2010 
 تعداد۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔1000
 کمپوزنگ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 پبلشرز۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 قیمت۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔




انتساب
آپنے ان چینی دوستوں کے نام،انکے ان جزبوں کےنام،اور اس محبت کے نام جس نے مجھےیہ کتاب لکھنے پر مجبور کیا۔میں یہ کتاب ان ہستیوں کے نام کرتا ہوں جنکی وجہ سے میں ان علاقوں کو دیکھ سکا وہاں جاسکا اور آپنی آنکھوں سے سب جگہوں کامشاہدہ کرسکا۔جو کچھ آپ پڑھنے جارہے ہیں یہ سب کچھ انکی مرہون منت ہیں۔






بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
 ( شروع اللہ کے نام سے جو بڑا مہربا ن اور نہایت رحم والا ہے)
چین میں آمد
لو جناب!  چل پڑا میں چین کے سفر پرچین جو کہ
 پریوں کا دیس ہے
چین جانا محض اتفاق نہیں تھا ۔ریڈیو پاکستان کا ایک پرو ڈیو سر ہمیشہ چائنا ریڈیو انٹر نیشنل کے ساتھ کام کرتا ہے۔اسلئے جب انکو ضرورت پیش آئی تو انہوں نے ریڈیو پاکستان سے حسبِ روایت پروڈیوسر مانگے ۔اور ریڈیو پاکستان نے جن پروڈیوسر وں کو  ٹسٹ و انٹر ویو کیلئے نامزد کیا ان میں ہمارا نام شامل تھا۔اور یہ بات مجھے اس وقت کے کنٹرولر ہوم (داخلی نشریات کے سربراہ) جناب شریف شاد نے ڈائریکٹر جنرل اشفاق گوندل کے دفتر میں خود بتائی۔
ڈائریکٹر جنرل ریڈیو پاکستان کے دفتر میں میری موجودگی اتفاقی نہیں  بلکہ ایک مجبوری تھی۔واقعہ یوں تھا کہ پشاور میں مجھے ابھی ایبٹ آباد سے آئے ہوئے  دو سال بھی پورے نہیں ہوئےتھے کہ ایک دن ڈپٹی کنٹرولر نورالبصر نے مجھے بتایا کہ کوشش کرو اور آپنا تبادلہ رکواؤ  جوکہ چترال ہوا ہے اور بہت جلد آپ کےاحکامات آنے والے ہیں۔ یہ بات مجھے بہت عجیب لگی ۔کیونکہ مجھ سے زیادہ لوگ ایسے موجود تھے جنکو پشاور میں زیادہ عرصہ گزرا تھا۔اور تبادلہ جن کا ہونا چاہیےتھا انکا نہیں ہو ا۔  اوراسی سلسلے میں  میں تگ و دو میں مصروف  تھا۔
اور آج  بھی میں اس سلسلے میں ریڈیوپاکستان کے ڈائریکٹر جنرل کے دفتر میں حاضر ہواتھا۔اسی وقت کنٹرولر داخلی نشریات بھی موجود تھے۔جب میں نے آپنے تبادلے کی بات کی تو جناب شریف شاد نے ڈی جی سے کہا کہ کہ انکو چین کیلئے نامزد کیا گیا ہے۔تو میں نے عرض کیا کہ آپ نے صرف مجھے تو نہیں بلآیا ریڈیو کے تمام سٹیشنوں سے لوگوں کو بلآیا  ہوگا۔
اسی طرح یہ سلسلہ چل نکلا میں آپنا تبادلہ رکوانے کے سلسلے میں اسلام آباد  آتا جاتا رہا اور ساتھ ساتھ  سی ار ای کیلئے ٹسٹ انٹرویو میں بھی حصہ لیتا رہا۔اور یوں سی ار ای کے نمائندے شاہین سے ان ملاقا توں میں دوستی بھی ہوگئی۔
سی آر ای کا آپنا طریقہ انتخاب ہےاسمیں کوئی تین مہینے لگے اس عرصہ میں میرا تبادلہ بھی بڑی مشکل سے رُک گیا۔اور اسی طرح ایک دن مجھے سی ار ای والوں نے اطلاع دی کہ چین آنے کی تیاری کرو۔اور یوں ہم نے بھی سوچا کہ چترال جانے سے  چین جانا بدرجہ  ہابہتر ہے۔کیونکہ ایک تو چین تاریخی ملک ہے اور دوسری طرف دنیا کی بنتی ہوئی معاشی قوت ہے۔
چائنا ریڈیو انٹرنیشنل کیلئے کام کرنابھی  ایک اعزاز ہے چونکہ یہ بین الاقوامی شہرت کی حامل ادارہ ہے۔پوری دنیا سے لوگ یہاں کام کرنے کیلئے آتے ہیں۔دوسری طرف چین دیکھنابہت سے لوگوں کا  ایک خواب بھی ہے اور جب ایسا موقع اللہ میسر کرے تو کفرانِ نعمت کی جرأت کون کرسکتاہے۔یہی وجہ تھی کہ ہم  نے بھی بڑی خوشی سے چین رخت سفر باندھا۔
ان دنوں جناب نوید احمد چوہان بھی ساڑے پانچ سال کا عرصہ سی ار ای میں گزار کر  وآپس تشریف لائے تھے۔موصوف سے ملاقات کی اور وہاں کے بارے میں تفصیلات معلوم کیں۔یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے  کہ جب نویدچو ہان  سن دو ہزار میں چین جارہے تھے تو اسوقت بھی اسے میں نے راغب کیا تھا کہ چین جاؤ۔اس زمانے میں پشتو کیلئے بھی ایک ماہر چاہئے  تھا۔لیکن اتفاق سے ان دنوں امریکہ میں ورلڈ ٹریڈ سنٹر کا واقعہ پیش آیا اور پھر دنیا کے دیگر ممالک کی طرح چین نے بھی فیصلہ کیا کہ اب افغانستان کے ساتھ تعلق کی بناء  پر ا فغا ن لینا چاہئے ۔کیونکہ اب یہی ملک اہمیت اختیار کر گیا تھا۔اور اسی وجہ سے پاکستان سے کوئی بھی نہ جاسکا۔خیر یہ تو رہی بات ۲۰۰۰ ءکی۔ اب آتے ہیں آپنے مطلب کی بات کی طرف تو اسی طرح مجھے چین جانے کا موقع مل گیا۔اور میں نے تیاری شروع کی۔اور چل پڑا میں پریوں کی دیس کی طرف۔




بیجنگ میں آمد
پندرہ نومبرسن ۲۰۰۷ ءکو میں پشاور  سے ہوائی جہاز کے ذریعے کراچی کیلئے صبح اٹھ بجے پی آئی اے کا جہاز کراچی کیلئے پشاور سےاڑا اور بیجنگ کیلئے رات گیارہ بجے فلائٹ تھی۔اسی طرح  رات گیارہ بجے  تک کا وقت مجھے کراچی میں گزارنا تھا۔
اتفاق سے میرا چچا زاد بھائی امتیاز بھی انگلینڈ سے وآپس آیاتھا ۔ انکی بیگم جو کہ کراچی یونیورسٹی کی شعبہ مایئکرو بیالوجی میں پڑھاتی ہیں پی ایچ ڈی کیلئے انگلینڈ گئی تھی۔ ساتھ پوری فیملی دو سال کیلئے بیرون ملک شفٹ ہوگئی تھی۔وہ  پی ایچ ڈی کرکے وآپس آئے تھے اور مجھےان سے ملاقات کا موقع بھی میسر ہوا۔اسی طرح کافی دنوں بعد ملاقات اچھی رہی ۔کراچی بھی میں ۱۹۹۰ء کے بعد گیا۔اور یوں دو پروازوں کے درمیان یہ وقت میں نے غنیمت جانااور آپنے بھائی کے خاندان سے ملاقات میں گزارا۔بصورت دیگر پورا  دن کراچی کے بین الاقومی ائر پورٹ پر گزارنا پڑتا۔بہر حال میں سی ار آئی والوں کا شکر گزار ہوں کہ مجھے یہ موقع انکے وساطت سے میسر ہوا اور میں آپنے بھائی کے خاندان والوں سے ملا ۔
کراچی سے بیجنگ تک کا سفر رات میں گزرا ۔کیونکہ رات گیارہ بجے پاکستان کے وقت کے مطابق چائنا ائر کا جہاز کراچی سے بیجنگ کیلئے اڑا اور اگلے دن بیجنگ کے وقت کے مطابق صبح اٹھ بجے بیجنگ کے بین لاقوامی ائر پورٹ پر اترا۔اور یوں میں نے پریوں کے دیس میں پہلا قدم رکھا۔
چونکہ چین پاکستان میں پریوں کے وطن کےطور پر مشہور ہے اسلئے میں بھی اسے پریوں کا دیس ہی کہوں گا ۔اس موضوع پر بھی موقع پر بات ہوگی۔ہمارے پرانے داستانوں میں کوہ قاف کی پریاں مشہور ہیں اور چین کی پریاں مشہور بلکہ زبان زدعام ہیں۔
رات بھر ہوائی جہاز پر نیند نہیں آئی اور میں چین اور آپنے کام کے بارے میں سوچتا رہا۔چین کے بارے میں جو کچھ پڑھا تھا وہ آنکھوں کے سامنے گھومتا رہا۔اسی طرح مارشل آرٹس کے فلموں کے مناظر بھی آنکھوں کے سامنے آتےجاتے رہے۔اسی طرح قدیم  چین کی شان وشوکت ذہن پر چھائی رہی۔
جب صبح کے وقت ہم بیجنگ کے حدود میں داخل ہو گئےتو نیچے شہر عجیب سا دکھائی دے رہا تھا۔ اور اسوقت تو میں بالکل حیران ہوا جب میں نے بیجنگ کے بلند بالا عمارات دیکھیں۔
بیجنگ ان دنوں اولمپیک گیمز کی تیاریوں میں مصروف تھا اور ہر طرف بیجنگ  اولمپیک کھیلوں کی  تیاریاں نظر آرہی تھیں۔جہاں آپ جاتے اولمپیک گیمز کے اشتہارات اور نشان آنکھوں کے سامنے ہوتے۔ہرکسی کے سر پر بیجنگ کھیل سوار تھے۔چینی حکومت اور عوام کا جذبہ دیکھ کر ہمارےذہن پر بھی اولمپیک کا جن  سوار ہوا اور ہم بھی ہر جگہ اسکی باتیں کرنے  لگےتھے۔
بیجنگ میں آکر معلوم ہوا کہ چینی حکومت اور قوم بیجنگ اولمپیک کھیلوں میں کتنی دلچسپی لیتے ہیں اور آپنی قوم کی عزت کا چینی لوگوں کے ساتھ کتنی فکر ہے اور ان میں اتحاد اور یکجہتی کا جذبہ کتنا پآیا جاتا ہے اور یہ لوگ قومی وقار کو کتنی اہمیت دیتے ہیں۔
میرا نیپالی دوست کمل لمسال تو بہت جذباتی ہوجاتا تھا اور ہم چینیوں سے بھی زیادہ اسکے خواہاں تھے کہ یہ کھیل دنیا میں مثالی کھیل بن جائے اور پھر اس قوم اور انکی  حکومت نے یہی ثابت کرکے دکھآیا اور انہوں نے دنیا کو حیران کردیا۔
خیر یہ تو چین میں داخل ہوتے وقت کے حالات اور باتیں ہیں آگے اس حوالے سے  آپنے موقع پر اسکا تفصیلاً  ذکر ہوگا۔
جب میں بیجنگ پہنچ گیا تو بیجنگ ایئر پورٹ بہت اچھا لگا۔میں صبح کے وقت پہنچ گیا تھا۔اور وہ بھی کراچی سے  جہاں پنکھے چل رہے تھے جبکہ  بیجنگ میں سخت سردی پڑ رہی  تھی۔

پہلا کام
جب ہماراجہاز بیجنگ کے ہوائی اڈے پر اترا تو تھوڑی دیر میں ہمیں بھی  اترنے کیلئے حکم دیا گیا۔ جہاز سے قدم باہر رکھتے ہی بیجنگ کی ٹھنڈی ہوا نے ہمارا استقبال کیا۔اور اسوقت مجھے سوات کی ٹھنڈی ہوا یاد آئی۔دوسرے طرف آپنی غلطی کابھی احساس ہوا کہ میں آپنے ساتھ گرم کپڑے بھی نہیں لآیا تھا۔ائیر پرٹ کا عملہ اچھا تھا اور انکا رویہ دوستانہ تھا۔ہمیں زیادہ وقت نہیں گزارنا پڑا۔بس آپنی ایک کوتاہی کا احساس ہوا کہ ہمیں چینی زبان نہیں آتی اور ائیرپورٹ کا عملہ چینی بول رہی تھی۔ بس میں انکے منہ دیکھتا رہا۔ایک وقت تو ایسا لگا جیسے عملے کا آدمی کہہ رہا ہو کہ یہاں آنا تھا تو چینی سیکھ کر آتے۔بھر حال زیادہ وقت نہیں لگا۔جب میں آرہا تھا تو یہ خیا ل تھا کہ انگریزی سے کام چل جائے گا مگر یہ میری خام خیالی تھی۔آگے بڑے مسئلےذہن میں آنے لگے۔
جب میں باہر آیا تو چائنا ریڈیو انٹر نیشنل کا نمائندہ  میرا انتظار کر رہا تھا۔اس حضرت نےا پنا نام سرفراز بتایا جسے سنکر مجھے حیرت بھی ہوئی اور خوشی بھی کیونکہ انکے نام میں شناسائی تھی دوسری طرف اسمیں آپنائیت کا عنصر بھی تھا۔مجھے انکے ساتھ بات کرنے میں بڑا مزہ آیا کیونکہ وہ اردو میں بات کرر ہا تھا۔ابھی انکی اردو اتنی اچھی نہیں تھی  انہوں نے میرے پوچھنے پر بتایا کہ میں نےتعلیم چینی میں حاصل کی ہے۔
            جناب سرفراز صاحب سی ار آئی کی گاڑی ساتھ لائے تھے۔راستے میں انہوں نے  پروگرام بتایا کہ پہلے ہم آپ کو گھر دکھائیں گے تاکہ رہائش کا انتظام پہلے کیا جا سکے۔اور یوں ہم گھر کی تلاش میں نکل پڑے۔ہم مختلف مقامات پر گھر دیکھنے کیلئے چلے گئے۔
      چین میں پہلا کام جو کرنا ہوتا ہے وہ ہے پولیس سٹیشن پر رجسٹریشن۔ اور اسکے لئے جہاں آپ رہایش اختیار کرینگے اسکے مالک کے کاغذات بھی ضروری ہوتے ہیں۔اسلئے پہلے ہم نے مکان کرایہ پر حاصل کیا اور پھر تھانے گئےتاکہ رجسٹریشن وقت پر ہوسکے۔چین میں غیر ملکی کےپہنچنے پر پہلا کام اسکی رجسٹریشن ہے۔اگر ۲۴گھنٹوں کے اندرآپ نے رجسٹریشن نہیں کی تو قانوناً آپ مجرم ہے اور آپکی سزا ملک بدری ہوسکتی ہے۔اسلئے جو بھی بیجنگ پہنچتا ہےاورپہلےرجسٹریشن کرتا ہے۔۔اسکے علاوہ اگرآآپ کہیں اور جائیں گے  اور ۲۴ گھنٹے ادھر رہیں گے تو آپ کو لازمی رجسٹریشن کرنا ہوگا۔یہ قانون ہے اور اسمیں کوئی دوسری بات نہیں۔           
                   مکان تلاش کرنا بھی ایک بڑا مسئلہ ہے اور ہر انسان اس سے گزرتا ہے کیونکہ جہاں بھی جاؤ  پہلا کام یہی ہوتا ہے۔سر چھپانے کیلئے چھت ۔۔۔رات گزارنے کیلئے مکان چاہیے۔میرا خیال تھا کہ ہم تو پرستان جارہے ہیں وہاں پر یہ مسئلے نہ ہوں گے۔مگرآج بیجنگ میں پہلے دن پہلا کام یہی کرنا پڑا جو ساری زندگی  کرتے آئے ہیں۔ریڈیو پاکستان پشاور کو جب محمد صدیق پراچہ کا تبادلہ ہوا تو چھ مہینےبعد معلوم ہوا کہ موصوف چھ مکان تبدیل کرچکے ہیں۔۔ ہمیں کیا معلوم تھا کہ ہم چین میں بھی ایسا کرنےوالے ہیں۔۔
 پہلا مکان جو ہم نے دیکھا مجھے پسند آیا اسکے بعد کئی اور فلیٹ بھی دیکھ لئے مگر وہ اتنے اچھے نہیں تھے۔اسلئےپہلے والے مکان کو جو ایک بیڈروم ،  ایک ڈائننگ ،باتھ اور کچن  پر مشتمل تھا۔اور اسمیں ایک پرانا فریج ،ایک ٹی وی اور ایک چارپائی تھی ۔کو لینے کافیصلہ ہوا۔
                        سرفراز صاحب نے مجھے گھر کی کھڑکی سے دور ایک خوبصورت عمارت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ   Cri کی عمارت ہےاوراب ہم وہاں جائیں گے۔
کوئی پندرہ منٹ تک خوبصورت اور  جدید طرز کی عمارات  اور سڑکوں سے گزرنے کے بعد ہم   چائنا ریڈیو انٹر نیشنل کی عمارت تک  پہنچ گئے۔ چین میں تحفظ عامہ کو کافی اہمیت دی جاتی ہے اور ہرجگہ تحفظ عامہ کے اہلکار نظر آتے ہیں کسی بھی سرکاری عمارت میں داخل ہونے کیلئے ضروری کاروائی کرنی پڑتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ چین دنیا کے محفوظ ترین ممالک میں شمار ہوتا ہے ۔ میرے خیال میں بیجنگ دنیا کے محفوظ ترین شہروں میں سے ایک ہے۔اسی طرح چائنا  ریڈیو انٹر نیشنل جو کہ دنیا کے بڑے نشریاتی اداروں میں سے ایک ہےبھی تحفظ کا خیال رکھتی ہے ۔خیر جب ہم لفٹ میں داخل ہوگئےاور بارھویں منزل پر لفٹ سے نکل آئے اور اردو سروس  کے شعبہ میں داخل ہوگئے۔وہاں پر موجود عملہ نے مجھے بہت ہی پرتپاک اور آپنائیت سے خوش آمدید کہا ۔مجھے یہاں پر اجنبیت کا احساس بھی نہیں ہوا حالانکہ سب لوگ نئے تھے اور کوئی بھی جاننے والا نہیں تھا پھر بھی سب آپنے لگے۔صرف اردو شعبہ کے انچارج محترمہ مہوش(ژاو چیاو)سے فون پر ایک دو دفعہ بات ہوئی تھی۔لیکن آج ان سب لوگوں کے ساتھ مل کر ایسا لگا جیسے ہم کافی عرصہ سے ایک دوسرے کو جانتے ہو۔
  سب لوگوں کے ساتھ  سلام دعا اور علیک سلیک ہوگئی۔کچھ دیر بیٹھے رہے اسکے بعد محترمہ مہوش کے کہنے کے مطابق میں اور سرفراز(وو) دونو  ں گئے۔بینک سے رقم حاصل کی۔کھانا کھانے کیلئے قریبی ریسٹورانٹ چلے گئے۔میرے کچھ پوچھنے سے پہلے سرفراز صاحب نے وضاحت کی کہ یہ ایک مسلم ریسٹورانٹ ہے اور یہاں حلال کھانا ملتا ہے اسمیں کام کرنے والے سارے مسلمان ہیں۔انہوں نے ایک قسم کے ڈش کا آرڈر دیا۔۔جو اسوقت تو میں نہ سمجھ سکا مگر جب کھانا لآیا گیا تو واقعی لذیذ کھانا تھا انہوں نے بتایا کہ یہ شیجیانگ کی ڈش ہے اور اسکا نام دابنجی ہے۔اور اسکے بعد یہ میرا پسندیدہ ڈش بن گیا اور جب بھی کسی دوست کو کھانا کھلاتا تو دابنجی ضرور اسمیں شامل ہوتا۔
میڈم مہوش نے پہلے سے رقم کا انتظام کر رکھا تھا کہ گھر کا کرایہ ادا کیا جاسکے اور یوں ہم پرآپرٹی ڈیلر  کے پاس گئے کافی لمبی چوڑی میٹنگ کے بعد معاہدے پر دستخط ہوگئے اور یوں گھر  کی چابیاں لیکر جب ہم نکلے تو رات کے ساڑھے نو بج رہے تھے۔پرآپر ٹی ڈیلر کےآفس  سےباہر نکل کر بیجنگ کی سردی کا شدت سے احسا س ہوا۔۔۔یوں لگا جیسے بدن پر کپڑے ہی نہ ہو۔حالانکہ  میں نے کوٹ بھی پہن رکھا تھا۔لیکن سردی کی شدت بہت زیادہ تھی۔ہم سیدھے نزدیکی سپرمارکیٹ خوافو گئے۔وہاں پر گرم کپڑے،پیالے،چائے پکانے کیلئے کیتلی اور دوسرے ضروری اشیاء خریدے اور پھر وہاں سے ہم گھرآگئے کمرہ برابر کرنے کے بعد سر فراز صاحب چلے گئے اور میں سونے کیلئے چارپائی پر لیٹ گیا  اور یوں بیجنگ میں یہ میری پہلی رات تھی دن گزر گیا تھا اور اگلے دن باقاعدہ کام کا آغاز کرنا تھا۔
میں سوچوں میں گم تھا  ۔پورے دن کے واقعات میرے سامنے دوبارہ چلنے شروع ہوگئے اور یوں لگ رہاتھا کہ میں واقعی پریوں کے دیس میں ہوں۔۔۔۔

دفتر    کاماحول
صبح سویرے جب میں جاگا تو آپنےآپکو ایک نئے  ماحول میں پآیا۔ناشتہ بنآیا جو چائے اور ڈبل روٹی پر مشتمل تھا۔نیچے سے آوازیں آرہی تھی ساتھ موسیقی بج رہی تھی مجھے عجیب سا لگا۔جب جاکے کھڑکی سے نیچے جھانکا تو دیکھا کہ کافی عمر رسیدہ خواتین جو کہ پریوں سے کم دکھائی نہیں دے رہی تھیں ۔خوبصورت رنگ برنگے لباسوں میں ناچتے ہوئے نظرآئیں۔یہ سب لوگ ایک خاص قسم کی ورزش کررہی تھیں جو بعد میں مجھے معلوم ہوا کہ یہ تایجی ہے۔یہ بھی مارشل آرٹس کی ایک قسم ہے جو کہ زیادہ تر زیادہ عمر کے لوگ  اسکے ورزش کرتے ہیں اور بڑھآپے میں جوانی کے مزے اٹھاتے ہیں۔ خیر یہ تو  تھی گھر کے دریچے سے باہر کے نظارے کی بات ۔
جناب سرفراز وقت پر میرے پاس آئے اور ہم چل پڑے دفتر کی طرف ۔جو کہ پندرہ منٹ کے فاصلے پر واقع تھا۔راستے پر میرے ذہن میں طرح طرح کے خیالات آتے رہے۔اور بیجنگ میں پہلی صبح کے نظاروں سے لطف اندوز ہوتا رہا ۔یہاں کی ہر چیز نئی اور مختلف تھی اسلئے لطف اندوز ہونے کیلئے کافی سامان میسر تھا۔دن کا آغاز بھی اچھی طرح ہوا تھا۔
جب ہم دفتر پہنچ گئے۔تو میڈم مہوش نے ہمارا استقبال کیا انکے علاوہ محترمہ مسرت،محترمہ زہرہ،محترمہ سلیمہ،لیوشاوخوی،میڈم طاہرہ،اورفراز کے ساتھ ملاقات ہوگئی۔بعد میں پروفیسر لو،محترمہ رضیہ،میڈم تونگ،محترمہ شاہینہ سے بھی ملاقاتیں ہوگئیں۔مؤخرالذکر چار لوگ  مدت ملازمت  پورا ہونے پر سبکدوش ہوگئے ہیں مگرسی  ار آئی میں جز وقتی طور پر خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔جب میں وآپس آرہا تھا تو میڈم تونگ کچھ مجبوریوں کی بناء پر فارغ ہونے کیلئے استدعا کررہی تھی۔یہ سب لوگ بہت پیارے محبت کرنے والےلوگ  ہیں ۔
میڈم مہوش نے مجھے کام سمجھآیا کہ کیاکام کرنا ہے اور کیا نہیں ۔انہوں نے یہ بھی بتایا کہ ہمارے اوقات کار دو طرح کے ہیں صبح اور شام کے اوقات کار۔۔صبح آٹھ بجے سے پانچ بجے شام تک ۔جسمیں گیارہ سے دو بجے تک کھانے کا وقفہ ۔اور  بعد از دوپہر دو بجے سے رات دس بجے تک جسمیں پانچ سے چھ بجے تک کھانے کا وقفہ ہے۔کام بھی شام کے شفٹ میں زیادہ ہوتا ہے کیونکہ اسوقت خبریں بھی آنا شروع ہوتی ہیں ۔اور خبروں کی تیاری کے بعد انکو نشر کرنا بھی ہوتا ہے ۔چونکہ ہمارے پاس ماہر بھی ایک ہیں یعنی آپ تو اسلئے آپکو شام کو آنا پڑیگا۔اس دوران حامد ظہور بھی چین میں تھا لیکن وہ چھٹی پر تھا اسلئے کام  نہیں کرتاتھا۔اور دوسری بات یہ تھی کہ وہاں جاکر معلوم ہوا کہ موصوف کے ساتھ دفتر والوں کے تعلقات  ٹھیک نہیں ہیں اسلئے انکو وقت سے پہلے فارغ کرکے پاکستان بھیجنے کی تیاری کی جارہی تھی۔انکے بارے تفصیلات آپنے موقع پر آئیں گے۔
بھر حال اب ہم آپنی بات جاری رکھتے ہیں ۔تو اسطرح میری پہلی ملاقات  کافی سارے لوگوں کے ساتھ ہوگئیں۔ ایک بندہ جسکو دیکھنے کیلئے میں بہت بے چین تھا نظر نہیں آیا ۔یہ وہ بندہ تھا جسکے ساتھ پاکستان میں میری ملاقاتیں ہوتی رہی تھی اور  انکے ساتھ ایک گونہ دوستی بھی ہوگئی تھی ۔اسلئےمیں ان سے ملنے کیلئے بے تاب تھا۔یہ ہستی پاکستان سے میرے آنے سے قبل تشریف لائی تھی ۔دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ چھٹی پر ہیں اور دو مہینے بعد دفتر تشریف لائینگے۔اسطرح کی باتوں میں کافی وقت گذر گیا۔
پھر مجھے بیرونی ماہرین سے متعلق  دفتر لے جآیا گیا جہاں پر کاغذی کاروائی پوری کی گئی ۔کارڈ بنانے کیلئے فارم پُر کئے گئے۔اسطرح مجھے غیر ملکیوں کو جاری ہونے والا سرٹیفیکیٹ بھی مہیا کی گئی جو ہروقت آپنے ساتھ رکھنا ہوتا ہے اور اس بات کی ثبوت ہوتا ہے کہ آپکو چین میں رہنے اور کام کرنے کی اجازت ہے۔اس حوالے سے موقع پر تفصیلی بات ہوگی۔
اسی طرح کھانے کے وقفے کا وقت ہوا۔اور میرے ساتھ محترمہ مسرت ،محترمہ زہرہ اور محترمہ سلیمہ کینٹین گئیں کارڈ میں رقم جمع کرانےکیلئے متعلقہ کھڑکی  دکھائی رقم بھی جمع کرائی اور CRIکے کینٹین میں   مسلمانوں کیلئے مخصوص کھڑکی دکھائی وہاں سے کھانا لینے کیلئے طریقہ بتایا اور پھر ہم نے اکھٹے ہوکر چینی طریقے سے کھانا کھآیا یعنی کوایز  کے ذریعے ( تنکوں کے ساتھ کیونکہ چینی چمچ کا استعمال نہیں کرتے) کھانا کھآیا۔اسکے علاوہ کافی ساری باتیں ہوگیئں۔انہوں نے پاکستان کے بارے میں معلومات حاصل کرنے میں دلچسپی ظاہر کی جبکہ میں انکے بارے جاننا چاہتا تھا اور یوں تبادلہ خیا لات ہوتا رہا۔
مسلمان ہونے کے ناطے مجھے کھانا کھانے میں مسئلہ رہا۔لیکن اردوشعبہ کے لوگ بہت زیادہ تعاون کرنیوالے تھے انہوں نے جہاں تک ممکن تھا میرے ساتھ تعاؤن کیا اور جب بھی مجھے ضرورت ہوتی تھی سمجھاتے تھے۔اور میری مدد کیلئے تیار ہوتے تھے۔کھا نا کھانے کے بعد میں باہر چلا گیا۔دو بجے پھر دفتر آیا ۔سب لوگ دو بجے کام کیلئےحاضر ہوگئے ۔ہر بندہ کمپیوٹر کے سامنے بیٹھا آپنے کام میں مصروف رہا۔ سب لوگ آپنے کام پر توجہ دےرہے تھے کوئی بھی کسی دوسرے کے کام میں خلل نہیں ڈالتا تھا ۔مطلب یہ کہ ہرکوئی آپنے کام میں اتنا مگن تھا کہ یہ پتہ ہی نہیں چلتا تھا کہ یہاں کوئی اور بھی ہے۔ہر طرف خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ایسے میں کام کرنے کا مزہ بھی آیا۔رات دس بجے ڈیوٹی ختم ہوئی اور میں چل پڑا آپنےگھر کی طرف۔
شعبہ اردو کی سر براہ خاتون مہوش تھی جوکہ اب بھی ہیں۔۔بہت ہی ملنسار اور مہربان خاتون ہیں آپنے تمام کارکنوں کے ساتھ بڑی محبت کے ساتھ پیش آتی ہیں ۔خاموش طبع اور کام پر توجہ دینے والی اور نہایت سنجیدہ خاتون ہیں۔
محترمہ طاہرہ خوشباش صدابہار مسکرانے والی ہنس مکھ خاتون ہیں ۔اورشعبہ اردو کی نائب سربراہ تھیں۔
ایک بات بتاتا چلوں کہ یہاں ہمارا دفتر ایک کمرے پر مشتمل نہیں تھا بلکہ ایک بڑے ہال پر مشتمل تھاجسمیں قطاروں میں تیل لگے ہوئے ہیں اور ہر ایک کام کرنے والے کیلئے ایک کیبن سا بنآیا گیا ہے جسمیں ایک کمپیوٹر  کے ساتھ ایک ڈراور  اور کاغذات اور کتابوں کیلئے کافی گنجائش رکھی گئی ہے  ہم سارے لوگ اکھٹے بیٹھ جاتے تھے لیکن اسکے باوجود کہ سب لوگ موجود ہوتے تھے خاموشی کا عالم ہوتا تھا۔اگر کبھی بات کرنی ہو تو سرگوشی میں کی جاتی تھی۔ہمارے ساتھ والے ہال میں تامل سروس والے بیٹھتے تھے۔کبھی کبھی انکے ساتھ تبادلہ خیال بھی ہوتا تھا۔اسکے علاوہ اسی منزل پر ہمارے سٹوڈیوز بھی تھے اور ہمارے ساتھ سٹوڈیوز میں برمی زبان والے کام کرتے تھے ۔یعنی ہم باری باری کام کرتے تھے اور اسکے لئے اوقات کار متعین تھے۔
ان سب لوگوں کا رویہ دوستانہ اور محبت بھرا ہوتا تھا۔یہاں کا ماحول بھی بہت صاف اور خوشگوار ہوا کرتا تھا۔
بیجنگ
بیجنگ چین کا دارلخلافہ ہے اسے جدید اور قدیم دونوں ادوار  میں صدر مقام ہونے کا شرف حاصل ہے۔یہ شمالی چین کا حصہ ہے اسلئے اسے شمالی صدر مقام کہتے ہیں چینی میں بیےکے معنی شمال کے ہیں اور جینگ کے معنی ہیں دارالخلافہ یا صدر مقام۔
یوں سادہ لفظوں میں اسکے معنی ہیں شمالی صدر مقام۔ 
              کہتے ہیں کہ چنگیز خان کے پوتے کبلائی خان نے جب یہاں آپنی حکومت قائم کی تو انہوں نے اس شہر  کو تعمیر کیا اور اسکو با م عروج پر پہنچآیا ۔ جب مارکو پولو  ۱۲۷۵  میں یہاں آیا تھا تو وہ اس شہر سے بہت متأثر ہوا تھا ۔شہر کےگرد ایک فصیل تعمیر کی گئی تھی۔جو اب بھی جگہ جگہ نظرآتی ہے۔
   اس شہر کو شہر ممنوعہ بھی کہتے ہیں۔جسمیں باد شاہ،اسکے خاندان والے ،اور  امراء اور روسا رہتے تھے۔ انکی طرز رہائش دیکھ کر خوتونگ کی تعمیر شروع ہوئی جو منگول زبان کا لفظ ہے ۔یہ علاقے بھی دیکھنے سے تعلق رکھتی ہیں۔یہ بادشاہوں کی پر تعیش زندگی کی کسی حد تک نقل ہے جو بیجنگ کی ایک اور خصوصیت ہے۔
بیجنگ نےزمانے  کے بہت سے اُتار چڑھاو ٔبھی دیکھے ہیں اور زمانے کے گرم وسرد دور سے بھی گذرا ہے۔بیجنگ نے چینگشاہی دور کے بعد یورپی اور جآپانی تسلط کا زمانہ بھی دیکھا ہے۔
  یکم اکتوبر ۱۹۴۹ءکو اس شہر  پر ایک نیا سورج طلوع ہو ا۔جو دنیاکے قدیم آپنے زمانے کے سپر طاقت کو جدید دنیا کے سپر طاقت میں بدل دے گا ۔جو نئے زمانے اور دور میں دنیا کی رہنمائی کرے گا روشنی اور امن کا سفیر ہوگا۔
             اسی دن سے چینی قوم نے اور چینی رہنماؤں نے طے کیا تھا کہ اب  ظلم و بربریت اور استحصال کا زمانہ ختم ہوچکا ہے اب امن دوستی اور خوشحالی کا زمانہ آئے گا اور ایک دن دنیا اسکی گواہی دیگی۔اور ۲۰۰۸ ء میں آٹھویں مہینے کے آٹھویں دن کی شام کو اسنے دنیا کے لوگو ں کو یہ سب کچھ ثابت کرکے دکھآیا۔آپنے خوابوں کی تعبیر پایی ۔۔ اور ثابت کیا کہ یہ واقعی پریوں کا دیس ہے۔
بیجنگ کیلئے سن ۲۰۰۸ء بہت ہی اہم رہا اور چین کے تاریخ میں یہ سال سنہرے حروف سےرقم کی جاتی رہے گی۔اس سال چین میں برفباری کا طوفان آیا،اسکے بعد زلزلے بھی آئےاور اسنے دنیا کو ہلاکر رکھ دیا۔اسکے علاوہ بیجنگ کا صد سالہ خواب بھی اسی سال پورا  ہوا۔
         چین میں آپنی تاریخ کا بدترین برفانی طوفان آیاتھا جس نے جنوبی چین اور کچھ صوبوں میں زندگی کو مفلوج کرکے رکھ دیا تھا۔مگر بیجنگ کا حوصلہ دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔کہ چین کے صدر ،وزیر اعظم اور کمیونسٹ پارٹی کے رہنماؤں نے ہر قدم پر قوم کا ساتھ دیا۔ہر وقت متاثرین کے ساتھ رہے اور حکومتی شعبوں کے متعلقہ حکام اور کارکن دن رات سڑکیں صاف کرتے رہے اور دن رات بجلی اور ٹیلیفون کی تاروں کو ٹھیک کرتے رہے۔اور اسی طرح بہت سے لوگوں نے موسم بہار کے تہوار کو کام کرنے میں گزارا ۔جبکہ یہ موسم اور یہ تہوار چینیوں کیلئے بہت اہم ہوتا ہے۔وہ سارا سال انتظار کرتے ہیں کہ جاکر آپنے والدین سے ملیں گے اور مخصوص روایتی کھانے کھائیں گے۔چین کے وزیر اعظم نے بھی یہ تہوار برف میں پھنسے ہوئےاور کام کرتے ہوئے لوگوں کے ساتھ منآیا۔
  میں یہ سب دیکھ کر خوش بھی ہوتا تھا کہ کتنی عظیم ہے یہ قوم  کہ اسکے ایسے صدر اور وزیر اعظم حکمران ہیں  اورمیں چینیوں کے جوش وخروش اور جذبے سےبھی بہت متأثر ہوا تھا۔
    اس دوران چین بیجنگ اولمپیک کھیلوں کی تیاری میں مصروف تھا اور بیجنگ کے جوش وجذبے میں کوئی فرق نہیں آیا تھا۔حکومت کے ساتھ عوام  بھی کہتے تھے کہ ہم دنیا پر ثابت کریں گے کہ ہم یہ سب کچھ کرسکتے ہیں یہ سارے دُکھ بھول کر اولمپیک منعقد کریں گے۔
ابھی یہ زخم مندمل نہیں ہوئے تھے کہ سچون میں شدیدزلزلہ آیا۔اور اس زلزلے نے پورے چین کو ہلاکر رکھ دیا تھا۔اس زلزلےنے جہاں لاکھوں لوگوں کو بے گھر کردیا،بہت سے بچوں کو یتیم کیا اور انگنت خواتین کو بیوہ بنآیا وہاں لاکھوں کروڑوں  کا نقصان بھی ہوا ۔چین کے صدر اور وزیراعظم نے متاثرہ علاقوں کے دورے کئے ۔اور وہاں تب تک آتے جاتے رہے جب تک بچاؤ اور دوبارہ آبادکاری کا کام شروع نہ ہوا۔اسکے لئے خصوصی مراکز قائم کئے اور بحالی کا کام جس سرعت سے شروع کیا وہ آپنی مثال آپ ہیں۔اسکے ساتھ ساتھ بیجنگ اولمپک کھیلوں کی تیاریاں بھی جاری رہیں۔
             یہ سب باتیں یہاں لکھنے کا مقصد یہی ہے کہ آپکو معلوم ہو کہ چین نےاولمپیک کھیلوں کی تیاری کیلئے کتنی قربانیاں دیں  اور کتنی تکالیف سہیں۔ہم سرکاری طور پر بھی اور ذاتی طور پر اسمیں دلچسپی لیتے تھے۔چین کی تکالیف اسوقت ہم نے خو د دیکھی اسلئے ان گیمز کی تیاریوں کو ہم بہت قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔شاید اگر کوئی دوسراملک ہوتا تو ان حالات میں وہ اولمپیک گیمز کو ملتوی کرنے کیلئے درخواست دیتا مگر چین نے ایسا سوچا بھی نہیں۔
   بیجنگ میں نے جیسے عرض کیا قدیم اور جدید چینی تہذیب کا سنگھم ۔قدامت کی گواہی چینکے شاہی محلات ۔باغات،اور تاریخی عمارات دیتے ہیں اور جدید ثقافت کو ہم نے بھی دیکھا اور پوری دنیا اسے دیکھ رہی ہے۔
   یہاں پر سیاحوں کیلئے بہت سارے دلچسپی کے مقامات ہیں جن میں،شہر ممنوعہ،تیان انمن سکوائر،ٹیمپل آپ ہیوں،بیہایی پارک،گرما محل، دیوار چین وغیرہ شامل ہیں،
 جدید مقامات پارکوں پلازوں اور سپر مارکیٹ،پر مشتمل ہیں۔عظیم قومی تھیٹر،ژونگ گوان سن،اور بیجنگ اولمپک کھیلوں کے مقامات،جن میں،پرندے کا گھونسلا (سٹیڈیم)اور پانی کا مکعب(واٹر کیوب) شامل ہیں۔چین نے جدید سائنسی اور ماحول دوست اولمپیک کھیلوں کا وعدہ کیا تھا اور آپنے اس وعدے کو خوب نبھآیاجسے رہتی دنیا تک سراہا جائے گا۔
  چین میں آمدورفت  انتہائی آسان ہے اور آپ تمام ذرائع سے مستفید ہوسکتے ہیں۔آپکی مرضی  ہےپیدل گھومنا چاہو،بس کے ذریعے یا سائیکل پر اور یا پھر ٹیکسی کےذریعے اور کافی سارے مقامات پر جانے کے لئے آپ یہ سب ذرائع استعمال کرسکتے ہیں اسکے علاوہ زمین دوز ٹرین یعنی سبوے کے ذریعے بھی بہت سارے مقامات تک کم وقت میں پہنچا جاسکتا ہے۔
  آپکو ہر بس سٹاف پر ہر بس کے تمام سٹاف کے بارے معلومات فراہم کی جاتی ہیں۔مسافر کہیں بھی جائے تو اگر چینی زبان  پڑھ سکتا ہو تو پھر تو کوئی مسئلہ نہیں ہے۔بعض بسوں اور تمام سبوے میں معلومات انگریزی زبان میں بھی دستیاب ہیں۔
   آپ کہیں بھی جانا چاہیں آپکو ہر قسم کے نقشے مل جائیں گے سبوے کے،سڑکوں کے،اور پیدل راستوں کے۔اسکے علاوہ آپکو گائیڈ بھی مل جائیں گے جو آپنی خدمات آپکو فراہم کریں گی۔
   بیجنگ دنیا کے محفوط ترین شہروں میں سے ایک ہے ،ہرجگہ حفاظتی اقدامات کئے جاتے ہیں،اور ہر جگہ آپکو پولیس نظر آئیں گی۔بیجینگ کے پولیس مدد کرنیوالے اور دوستانہ روئیے کے مالک ہوتے ہیں۔لیکن ہمیں مشکلات اسوقت پیش آتی ہیں جب زبان کا مسئلہ سامنے آتا ہے۔کیونکہ کوئی بھی چین جائے تو انکو اتنی زبان سیکھنی چاہیے کہ آپنا گزارہ کرسکے۔
               بیجنگ میں ایک بات جو بہت اچھی ہے وہ یہ کہ بہت سارے روزمرہ کاموں سے تعلق رکھنے والے دفاتر چھٹی کے دن بھی کھلے رہتے ہیں مثلا،بینک،پانی فراہم کرنیوالے اور بجلی سے متعلقہ ادارے۔ہمیں جب بھی پانی کی ضرورت پیش اتی ہم چھٹی یعنی اتوار کے دن جا کر یہ چیزیں خریدتے تھے۔سارے بل چھٹی یعنی اتوار کے دن جمع کراتے تھے۔ہسپتال میں اتوار کے دن بھی تمام ڈاکٹر اور عملہ موجود رہتا تھا۔شہ جینگشان یعنی جس علاقے میں میں رہتا تھا وہاں کا بڑاہسپتال تھا۔جہاں کئی دفع چینی دوستوں کے ساتھ جانے کا اتفاق ہوا۔اتوار کے دن بھی کھلا رہتا تھا۔ڈاکٹر بھی اچھے تھے اور چینیوں کو سستا علاج فراہم کرتے تھے۔ہسپتال کا عملہ بھی اچھا تھا۔میں نے چینیوں کو اسلئےلکھا ہے کہ اللہ کا شکر ہے میں کبھی ایسا بیمار نہیں ہو ا تو یہ تجربہ حاصل نہیں ہوا کہ غیر ملکیوں کے ساتھ کیسا ہے۔لیکن میرے ساتھ جہاں تک واسطہ آیا اچھا رہا۔
   کہتے ہیں کہ ایک آدمی کی غلطی سب کیلئے وبال بن جاتی ہے۔بیجنگ اولمپیک کھیلوں کے دوران کچھ نا خوشگوار واقعات بھی رونما ہوئے اسلئے غیر ملکیوں پر زیادہ نگاہ رکھی جانے لگی اور پابندی لگائی گئی تھی کہ ہر ہسپتال میں غیر ملکی کا علاج نہیں کیا جائےگا۔ ہوا یہ کہ ہمارے ایک دوست نے جو پاکستانی تھا بتایا کہ اسکا بچہ زخمی ہوگیا ۔اور وہ اسے ہسپتال لے کر گئے ۔مگر ڈاکٹروں نے کہا کہ آپ دوسرے ہسپتال جاؤ غیر ملکیوں کیلئے الگ ہسپتال ہیں۔خیر پھر وہ چاویانگ گئے جہاں انکا مسئلہ حل ہواتھا۔اور یہ رات دو بجے کا واقعہ تھا۔
  ہمارے دوست ستار صاحب  جو کہ بیجنگ میں APPکے نمائندہ تھے کے ساتھ بھی یہ واقعات پیش آتے تھے مگر انکو کبھی کسی ہسپتال والے نے یہ نہیں کہا تھا کہ آپ دوسرے ہسپتال جائے ۔یہ ایک الگ کہانی ہے اور مناسب جگہ پر اسکا ذکر کروں گا۔کیونکہ انکے ساتھ میرا سب سے زیادہ تعلق رہا۔وہ میرے دوست بھی تھے ۔اور انکی پوری فیملی بیمار رہی،انکی بیگم اور بچے اکثر بیماررہتے تھے۔اور انکو ہماری خدمات کی ضرورت ہوتی تھی کیونکہ وہ اکیلے  تھے اور مصروف رہتے تھےاور آسیہ انکی بیگم کے ساتھ ہسپتال میں رہا کرتی تھی اور کئی راتیں اسنے انکے ساتھ ہسپتال میں گزاریں۔
      بات ہم بیجنگ کی کررہے تھے کہ بیجنگ میں صحت کے بہترین مراکز موجود ہیں اور یہاں پر دنیا کے بہترین علاج کیلئے سہولیات دستیاب ہیں۔
 ہم بیجنگ کے گلیوں اور بازاروں میں خوب گھومے پھرے ہیں۔چونکہ مجھے چینی زبان سمجھ   نہیں آتی۔بس میں آپنا کام چلاتا تھا۔مجھے سب سے زیادہ سہولت آپنے دوستوں اور انکے خاندان سے پہنچا۔مجھے بہت سے نام یاد نہیں ہیں لیکن بہت ساری جگہیں میں نے دیکھی ہیں۔خصوصاً جب میرے دوست اور جاننے والے آپنے لئے ریسٹورانٹ ڈھونڈ رہے تھے۔وہ چاہتے تھے کہ بیجنگ میں آپنا  کاروبار کرکے قسمت آزمائے۔اور پھر ہم ریسٹورانت ڈھونڈتے رہے ۔اسی ریسٹورانٹ کیلئے ہر جگہ گئے اور مجھے بہت ساری چیزوں کے بارے میں معلوم ہوا۔بہت سی ایسی جگہ ہم گئے ۔اگر میں انکے ساتھ نہ گھومتا پھرتا۔زندگی میں یہ موقع کبھی بھی نصیب نہ ہوتا۔ایک بات کی وضاحت بھی کرتا چلوں کہ بیجنگ میں عموماً اور  سی ار آئی میں خصوصاً  ہفتے میں دو چھٹیاں ہوتی ہیں۔یعنی ہفتہ اور اتوار۔اسلئے میرے پاس ہفتے میں دو دن کی چھٹیاں ہوتی تھی۔اور اسکے علاوہ باقی دنوں میں چونکہ دن دو بجے سے رات دس بجے تک میری ڈیوٹی ہوتی تھی اسلئےگھومنے پھرنے کیلئے وقت نکل آتاتھا۔ ڈیوٹی کے دن میں صبح ساڑھے گیارہ بجے تک گھو م پھر لیتا ۔پھرآکر گھرپر آرام کرتا اور دوبجنے سے پہلے دفتر کیلئے روانہ ہوجاتا۔کمل کی بھی یہی معمولات تھے ۔یوں ہم کو بیجنگ کی سیر کیلئے کافی  وقت مل جاتا تھا۔


قدامت اور جدیدیت کا سنگھم
(بہ یک وقت قدیم اور جدید شہر)
               بیجنگشہر  چین کے قدیم شہروں میں شمار ہوتا ہے تو دوسری طرف یہ دنیا کے جدید ترین شہروں میں  سےبھی ایک ہے۔یہاں پر چین کےقدیم مقامات اور پرانا شہر جسے شہر ممنوعہ بھی کہتے ہیں آپنے اصلی حالت میں موجود ہیں جو قدیم چین کے فن تعمیرات کا عجوبہ اور بادشاہوں کا مسکن ہے۔یہ شہر ایک طرف چین کی پرانے تہذیب کی امین ہے تو دوسری طرف چین کے شاندار ماضی اور شاہی محلات کا بہترین نمونہ بھی ہے۔دوسری طرف جدید چین کے ترقی کی دعویدار کمیونسٹ اور سوشلسٹ چین کی دارالحکومت اور چینی عوام کی امیدوں کا مرکز بھی ہے۔
    چین اور بیجنگ کے بارے میں یہ تو عرض کرچکا ہوں کہ ہمارے توقعات سے کہیں زیادہ ترقی یافتہ سہی۔چین کو چینی کمیونسٹ حکو مت نے جدید ترین خطوط پر استوار کیا ہے چینی قوم اور چینی حکومت نے واضح اہداف طے کئے ہیں اور گزشتہ نصف صدی میں انہوں نے ان اہداف کو حاصل کرنے کیلئے جو محنت شاقہ اور تگ ودو کیں ہیں آج کا بیجنگ اسکا ببانگ دہل اعلان کرتا نظرآتا ہے کہ جو قومیں اور حکمران آپنے عوام اور ملک سے مخلص ہو وہ ایسی ترقی کرتے ہیں۔جو کہ نہ صرف پوری دنیا کونظر آتے ہیں بلکہ آپنے ملک کا ایک ایک گوشہ اور زرہ اسکا اعلان کرتا نظر آتا ہے۔
چیئرمین ماوزےتونگ کی سربراہی میں چینی کمیونسٹ پارٹی کی سربراہی میں حکومت کی داغ بیل ڈالنے اورجناب دنگ شیاوپینگ کی سربراہی میں اصلاحات کا آغاز کرنے کے بعد چین نے بہت ہی کم وقت میں جو ترقی کی ہے اسکی مثال دنیا کی تاریخ میں نہیں ملتی۔ایک قوم اور ایک ملک ایک تہذیب کا نہ صرف دعویٰ کیا بلکی ثابت بھی کیا۔آج کا بیجنگ یہ سب باتیں خود بتا رہا ہے۔
                                     اگر شہر کے مرکز میں سڑک کے ایک کنارے چینی طاقت کا مرکز عظیم حال اور ،عظیم قومی تھیٹر ہے تو دوسری طرف پرانے چین کی طاقت کا مرکز شہر ممنوعہ ہے۔
 اگر سطح زمین کے اوپر عظیم دیوارچین ہے تو زمین کے اندر ترپان کے کاریز ہیں جو  عمر اور لمبائی میں دیوار چین کے برابر ہیں دوسری طرف ابیاری کا قدیم نظام جو کہ اسی دور میں صوبہ ژجیانگ میں تعمیر کیا گیا۔ اسکے علاوہ چینیوں کا چاند کی سطح پر قدم رکھنا ،خلائی وسعتوں کو تلاش کرنا  اور مکمل چاند کی پہلی تصویر تیار کرنا ۔۔۔۔۔ان سب باتوں کو ثابت کرنے کیلئے کافی ہیں ۔
  اسی طرح اور بھی بہت کچھ ہیں جو کہ پیش کئے جاسکتے ہیں۔لیکن میں طوالت کے ڈر سے زیادہ تفصیل میں نہیں جاونگا۔اتنا کافی ہے۔۔۔کہنے کا مقصد یہ ہے کہ جب آپ چین میں داخل ہوں گے  یہ سب چیزیں دیکھوگے تو سب رازآپ پر کھل جائیں گےاور آپکو ماننا پڑیگا کہ چین واقعی پریوں کا دیس ہے۔
        بیجنگ کی زندگی دنیا کے جدید شہروں کی طر   ح  ہے چونکہ اب چین ترقی کررہا ہے اور گذشتہ تیس سالوں میں کھلے پن اور اصلاحات کی پالیسی آپنانے کے بعد لوگوں کا معیار زندگی بھی بلند ہوا ہے اور مخلص حکومت اور سربراہان مملکت کی وجہ سے ترقی اور خوشحالی کا پھل  عوام تک پہنچ رہا ہے یہی وجہ ہے کہ اکثریت لوگ خوشحال ہیں ۔ انہوں نے مغربی طرز زندگی کو اپنایا ہے۔انکا  رہن سہن مکمل طور پر مغربی سہی۔انکے کپڑے طرز عمارات،اور عام رہائش با لکل مغربی طرز کے اور جدیدہیں اور مغربی لائف سٹائل آپنانے کی ہر طرح کوشش کرتے ہیں۔یہی ماڈرنائزیشن یعنی جدیدیت ہے۔ان سب کے با وجود چینیوں نے آپنے اقدار اور ثقافت کو بھی نہیں چھوڑا۔۔۔
آج کی چینی زندگی چینی اور مغربی طرز زندگی کی امیزش ہے۔بلکہ میں تو یہ کہوں گا کہ چینی بظاہر مغربی نظر آتے ہیں لیکن انکا ذہن اور سوچ مکمل چینی ہیں۔ انکو آپنے رسم ورواج آج بھی اتنے پیارے ہیں جتنے تیس سال پہلے تھے ۔
بلکہ اگر  میں یہ کہو کہ چینی ثقافت کی تجدید ہورہی ہے خوشحالی کے ساتھ ساتھ لوگ اب پرانے رسم و رواج کی طرف لوٹ ہے ہین۔انکے میلے ٹیلے اور مختلف تہواروں سے یہی ظاہرہوتا ہے۔
میں چونکہ بیجنگ میں نو وارد تھا۔ میرے لئے سب کچھ نیا تھا۔اسلئے میں ہر چیز کا غور سے جائزہ لیتا تھا اور زیادہ سے زیادہ معلومات حاصل کرنے کی کوشش کرتا تھا۔اسلئے دوست بنانے کی کوشش بھی کرتا تھا لیکن چونکہ مجھے زبا ن سمجھ میں نہیں آتی تھی۔اسلئے دوست تو بہت بن جاتے لیکن زبان کیوجہ سے مارکھا جاتے تھے اور صرف اشاروں پر ہی اکتفا کرتے تھے۔لیکن مجھے جو بھی لوگ ملے وہ بہت اچھے تھے ۔ آپنے رفقائے کار کے علاوہ جو دوست مجھے ملے ان میں گیونگ  مجھےسب سے عزیز تھا۔وہ میرا سب  سے پہلا دوست بھی تھا جو چینی ہےاور انگریزی کا ایک لفظ بھی نہیں سمجھتا تھا اور نہ بول سکتا تھا۔لیکن میرا  سب سے بہترین دوست ہے اب بھی اسکے برقیاتی مختصر پیغامات مجھے آتے ہیں۔۔۔۔ اور اب بھی یہ اس لگائے ہیں کہ ہم جلد ہی بیجنگ میں ملاقات کریں گے۔۔۔۔۔
تو بات میں بیجنگ کی زندگی کی کررہاتھا۔بیجنگ کی زندگی مصروف ترین زندگی ہے اور چین دنیا کا سب سے بڑی آبادی والا ملک ہے ۔۔کہتے ہیں کہ دنیا کا ہر پانچواں آدمی چینی ہے۔اور پھر ان سب کے دل کا دھڑکن بیجنگ ہے۔اور ہر ایک چاہتاہے کہ بیجنگ کو دیکھے۔۔بیجنگ چین کی تاریخ اور ثقافت کا مرکز ہے۔یہاں پر کثرت کے ساتھ تاریخی مقامات موجود ہیں۔جو صدیوں پرانے ہیں اور  چینی کہانیوں میں موجود ہیں ۔ اسلئے ہر ایک چاہتاہے کہ یہاں آئے اور یہ علاقے دیکھ لے۔اسلئے آپکو ہر دن بلا ناغہ سڑکوں ، سبوے(زیرزمیں ریل گاڑی۔۔جسکو یورپی ممالک میں میٹرو بھی کہتے ہیں)اور بس سٹاف پر اتنے لوگ نظر آئیں گے کہ آپ یہی کہیں گے کہ آج سارا چین نکل آیا ہے۔
بیجنگ کی زندگی بہت رنگین ہے ہر وقت اور ہر دن چہل پہل ہوتی ہے بازار،پارک اور رسٹورانٹ  آباد ہوتے ہیں سڑکوں اور مارکیٹوں میں لوگو ں کا ہجوم ہوتاہے۔آپ کسی بھی پارک جائیں گے تو آپکو بوڑھے لوگ گاتے ناچتے نظر آئیں گے۔شام کو لوگ گھروں سے نکل کر پارکوں میں چلے جاتے ہیں بڑے بڑے ٹیپ ریکارڈ  لگاتے ہیں اونچی آواز میں موسیقی سنتے ہیں اور سب لوگ ٹولیوں کی صورت میں ناچتے ہیں ایک دوسرے کے ہاتھوں میں  ہاتھ ڈالے ہنستے ہیں اورمسکراکر ناچتے ہیں اس طرح ورزش کی ورزش  کرتےہیں اور خوشی کی خوشی مناتے ہیں۔سب لوگوں کی تھکن دور ہوجاتی ہے۔۔اور پھر ایک دوسرے کے بانہوں میں بانہیں ڈالے گھروں کی طرف رواں ہوتے ہیں۔ہر دن اور ہر شام یہی معمول ہوتا ہے ۔
بیجنگ میں جدید طرز کی سپر مارکیٹیں بنائی گئیں ہیں جو تمام تر سہولیا ت سے آراستہ ہوتی ہیں۔ان میں لوگوں کا تانتا بندھا رہتا ہے  میلے کا سماں ہوتا ہے۔یہاں کی سپر مارکیٹوں میں تمام ضروریات زندگی دستیاب ہوتی ہیں۔ یہاں پر پاکستان کی طرح کھلی فضا کی مارکیٹیں بھی ہوتی ہیں جسمیں سبزیاں وغیرہ ملتی ہیں ۔ یونگلہ شی شیاوچو میں بھی ایسی مارکیٹ موجود ہے یہاں پرہرقسم کے خوراک دستیاب ہیں۔ہم آپنی روز مرہ ضروریات کی اشیاءیہاں سے خریدا کرتے تھےاور یوں اس مارکیٹ میں بہت سارے لوگ ہمارے دوست بھی بن گئے تھے۔
اس مارکیٹ میں حلال کھانے بھی دستیاب تھیں۔شروع میں میں یہاں کھانے کی چیزیں خریدنے میں بہہت احتیاط کرتاتھا۔اور بہت کم کھانے کی چیزیں خریدتا تھالیکن جب آسیہ اور انکے خاندان والوں سے میری دوستی ہوگئی تو انہوں نے مجھے حلال کھانے بتائےاور یہ بھی سمجھآیا کہ کیا خریدوں اور کیا نہ خریدوں۔انہوں نے مجھے جگہیں بھی دکھائیں کہ کہاں سےخریدوں۔اسی طرح میرے کھانے کے مسائل حل ہوگئےتھے۔ بعد میں میں زیادہ تر انکے ساتھ کھآیا کرتاتھا انکے رسٹورنٹ پر۔۔۔اسلئے کھانا میرے لئے مسئلہ نہ رہا۔ویسے بھی چین میں کھانے کا مسئلہ زبان نہ جاننے کیوجہ سے ہوتا ہے۔میں نے سی ار آئی اور اس سے باہر  بہت سے عرب بھی دیکھے جو  کھانے کے معاملے میں زیادہ احتیاط نہیں کرتے تھے۔
   بیجنگ میں چونکہ ہم اکیلے تھے تو تنہائی کا احسا س بھی ہوتا تھا۔میں اور کمل گھومتے گھومتے مختلف مارکیٹوں سے گزرتے ہوئے اور انکو دیکھتے ہوئے ایک کھلے مارکیٹ میں گئے جہاں پر پرانے نادر و نآیاب چیزیں فروخت ہورہی  تھیں جن میں کتے،ہر قسم کے پرندے، اور میری حیرانی کیلئے ٹڈی  اور اسکے بچے بھی فروخت ہورہے تھے۔وہاں پر ہم نے سازوں کی ایک دوکان بھی دیکھی۔جسمیں چینی سازوں  یعنی اڑہو،پیپا،اور بھانسری کے علاوہ گیتار بھی فروخت ہورہے تھے ۔ہم نے بھی ایک گیتار خریدلی اور فارغ وقت میں اسکے ساتھ مشغول ہوتے تھے۔اسی مارکیٹ میں ہم نے کتابیں بھی خریدلی تھیں۔یہاں پر تلواریں بھی دستیاب تھیں ۔غرض بہت سی نادرو نآیاب اشیا ء مثلا ً سکے،چاقو،دوسری  چیزیں جو چین کے مختلف حصوں سے لائی گئیں تھیں یہاں پر مل جاتی تھیں۔
مجھے ان میں بتوں کے درمیان پیتل کی ایک تین پاؤں والا برتن بھی مل گیا تھا جو میں نے خرید لیاتھا اور اب بھی میرے پاس ہے۔یہ کافی قدیم لگتا ہے جس پر بہت خوبصورت انداز میں محمدرسول اللہ لکھا ہوا ہے جویہاں کے اسلامی اور چینی فنون  کا نمونہ ہے۔اسی طرح اور بھی بہت ساری چیزیں دستیاب تھیں۔
   بیجنگ کی زندگی پُر اسائش اور آرام دہ ہے۔یہاں ہر طرف پارک اور بڑے بڑے پلازے ہیں۔آپ ایک لمحہ بھی بوریت محسوس نہیں کریں گے۔یہاں پر اولمپیک کھیلوں کے مقامات بھی ہیں۔جہاں جب بھی آپ جائیں گے وہاں پرآپکو لوگوں کا جم غفیر نظرآئے گا۔چھٹی یا عام کام کا دن  ہو آپ یہ محسو س نہیں کریں گے ۔ یہاں پر آپکوہر دن عید کا دن نظر آئےگا۔زندگی گزرنے کا احساس نہیں ہوگا۔    یہاں پر بڑے بوڑھے کتے زیادہ شوق سے پالتے ہیں۔اس پر میں بہت سوچتا تھا۔کہ یہاں پر عمر رسیدہ افراد خصوصا ًکتے کیوں پالتے ہیں؟وجہ یہ ہے کہ یہاں چونکہ چھوٹے خاندان کا تصور ہے ۔
بچے جب سکول اور یونیورسٹی کے ہوجاتے ہیں تو والدین سے الگ ہوجاتے ہیں پھر کام بھی دیگر صوبوں میں مل جاتا ہے،جس کیلئے بچوں کو جانا پڑتا ہے اسطرح والدین اکیلے رہ جاتے ہیں۔اور پھر جب وہ کام سے فارغ ہوجاتے ہیں تو پھر جب انکے ساتھ باتیں کرنےوالا کوئی نہیں ہوتا تو وہ کتے پال کر آپنا وقت پاس کرتے ہیں۔ان کتوں کے ساتھ باتیں کرتے ہیں انکو پارکوں میں لے جاتے ہیں۔اور پھر یہی انکے دوست ہوتے ہیں۔
بیجنگ میں جب نوجوان کام پرجاتے ہیں بچے سکولوں کو جاتے ہیں تو بوڑھے پارکوں میں جاتے ہیں یا مارکیٹوں میں جاکر خریداری کرتے نظرآتے ہیں۔میں بھی کبھی کبھی صبح یونگلہ شی شیاو چو کے عقب میں ایک پارک میں جاکر انکے ساتھ محظوظ ہوتا تھا۔مجھے یہ لوگ بہت پیارے لگتے تھے۔شہ جینگشان مسجد کے ساتھ بھی بوڑھون کیلئےایک عمارت بنائی گئی تھی۔اسطرح چین کے مختلف علاقوں میں بزرگوں کیلئے عمارات اور مراکز بھی بنائے گئے تھے۔اور انکا  کافی خیال رکھا جاتا ہے۔
                   مجھے نوید نے بتایا کہ انکے ایک شاگرد خاتون بزرگوں کے ایک مرکز جاکر انکی خدمت کیا کرتی تھی۔ہر اتوار کو انکا یہی معمول تھا۔کسی دن یہ نہیں گئی تو کمیونست پارٹی کے ایک لیڈر نے انکو نوٹ کیا تھا اور انکا خیال تھا کہ یہ یہاں کی کام کرنے والی ہے۔جب وہ ایک دن آیا تو اسے موجود نہ پاکر انہوں نے انکے بارے میں دریافت  کیا۔ تو موقع پر موجود بزرگوں نے بتایا کہ وہ یہاں ملازم نہیں  بلکہ آپنے شوق سے ان بزرگوں کی خدمت کیلئے آتی ہیں انکو نہلاتی ہیں اور صاف کرتی ہے۔اس لیڈر کو یہ بات اچھی لگی اور انہیں بلا بھیجا ۔کہ جب تعلیم سے فارغ  ہو تو میرے پاس آنا ۔اور بعد میں جب وہ خاتون فارغ ہوگئی تو انہیں سب سے پہلے ملازمت ملی۔
   کہا جاتا ہے کہ چین میں مردوں کی تعداد عورتوں کی نسبت زیادہ ہے مگر یہ صرف بڑے شہروں پر صادق آسکتا ہےکیونکہ دیہات میں اب بھی عورتوں کی تعداد زیادہ ہے۔بڑے شہروں مین یہ صورت حال اسلئے پیدا ہوئی ہے۔کہ چین میں ایک بچہ پیدا کرنے کی اجازت ہےاسلئے شہرواں کی خواتین چاہتی ہیں کہ انکا نر بچہ ہو اور اسکے لئے وہ ہسپتالوں اور ڈاکٹروں سے رجوع کرتیں ہیں ۔اگر لڑکی کی چانس ہو تو حمل  ضائع کرتیں ہیں اور اگر مرد ہو تو اسے جنم دیتیں ہیں۔یہی وجہ ہے کہ بڑے شہروں مثلا بیجنگ شانگھائی  جیسے شہروں میں عورتوں کی تعداد  مردوں کے مقابلے میں کم ہے۔لیکن گاؤں اور قصبوں کی سطح پر صورت حال مختلف ہے۔عموماً چین میں نرینہ اولاد کو ترجیح دی جاتی ہے۔اسکا ہرگز یہ مطلب یہ نہیں کہ عورتوں کو نآپسند کیا جاتا ہے۔
      ویسے چین میں مرد اور عورت شانہ بشانہ کام کرتیں ہیں۔ایسا بھی ہوتا ہے کہ خاوند کسی ایک صوبے میں کام کرتا ہے اور بیگم کسی دوسرے صوبے میں کام کرتی ہے۔چٹھیوں میں جاکے ملتے ہیں۔
         جنوبی چین نسوانی حسن کیلئے مشہور ہے۔جسمیں ھانگژو اور سوژو سب سے آگے ہیں۔ایک دن دفتر میں باتوں باتوں میں لیو شاوخوی نے کہا کہپ جنوبی کے حسن کا جواب نہیں ۔میں نے پوچا وہ کیسے تو کہنے لگے کہ آپ زرا دینگ دینگ اور میڈم طاہرہ کو دیکھئے یہ جنوبی چین سے تعلق رکھتی ہیں اسلئے خوبصورت ہیں۔
     
      
دفتر کے لوگ
    سی ار آئی بہت بڑا ادارہ ہے اور یہاں پر بہت سے لوگ کام کرتے ہیں۔ان سب کو نہ تو میں جانتا ہوں اور نہ سب کے بارے میں لکھ سکتا ہوں۔جتنے لوگو ں کے ساتھ علیک سلیک تھی ان سب کے بارے میں بھی اگر دو دو جملے لکھے جائیں تو اسکےلئے ایک الگ کتاب کی ضرورت ہے۔ اسلئے میں صرف آپنے یعنی اردو شعبے تک آپنے آپکو محدود رکھوں گا۔اور ان لوگوں کا ذکر کروں گا جنکے ساتھ میں نے کام کیا یا جنکے ساتھ زیادہ تعلق رہا۔یہاں پر جن لوگو ں کے چینی نام مجھےآتے ہیں یا مجھے یاد ہیں وہ میں نے ساتھ بریکٹ میں لکھے ہیں۔
       شعبہ اردو میں جو  خواتین و حضرات کام کر تےتھے انکے نام یہ ہیں:۔
۱)محترمہ مہوش  (ژاوچیاو) :۔ انچارج شعبہ اردو کی سربراہ
۲)محترمہ طاہرہ  ) یے فنگ) :۔شعبہ اردو کی نائب سربراہ
۳)محترمہ زہرہ (دینگ دینگ)
۴)محترمہ مسرت(وانگ چیان تنگ) :۔
۵)محتر مہ سلیمہ           
۶) جناب لیو شاو خوی
۷)جناب شاہین (چن شیانگ)
۸)جناب سرفراز (ووپنگ فئی)
۹)جناب فراز
۱۰)جناب طاہر
۱۱)جناب محمدجمیل الرحمان
۱۲)جناب پروفیسر لوشوے لن ( ریٹایرڈ)
۱۳)محترمہ رضیہ(سون لیان مئی)
۱۴)محترمہ شاہینہ
۱۵) محترمہ تونگ
۱۶)محترمہ نسیم
۱) مہوش:  محترمہ مہوش متین،ذہین، خاموش طبع ، ہمدرد،محنتی  اورمحب وطن خاتون ہیں۔اور آپنے ملک کے ساتھ ساتھ پاکستان سے بھی محبت کرتی ہیں۔انہوں نے پاکستان میں بھی کافی وقت گزارا ہے۔ وہ آپنا کام بھی کافی شوق اور توجہ کے ساتھ کرتی ہیں ۔دوسری اہم خوبی انکا اچھا حافظہ ہےکیونکہ ایک دفعہ میں نے ایک چھوٹی سی بات کی تھی لیکن وہ بات انکو یاد رہی جس سے مجھے اندازہ ہوا کہ انکوبہت چھوٹی چھوٹی باتیں یاد رہتی ہیں۔سادہ کپڑوں میں ملبوس رہتی ہیں۔
        کوئی بھی بات کرنی ہو تو کافی وضاحت کے ساتھ کرتی ہیں اور کوشش کرتی ہیں کہ سننے والا سمجھ جائے۔اور کوئی ابہام نہ رہے۔اگر کسی بات سے انکار کرنا ہو یا یہ کہ مخاطب کے کسی بات کے ساتھ اختلاف رکھتی ہو تو بڑے مہذب  انداز میں اختلاف رائے کا اظہار کرتی ہے۔اگر کسی بات کے ساتھ اتفاق نہ بھی ہو تو براہ راست جواب نہیں دیتی اور کسی کو ناراض نہیں کرتی  اور آپنی مدعا بیان کرتی ہیں۔کہ مخاطب ناراض بھی   نہ ہو اور بات سمجھ جائے ۔ بات ہمیشہ مختصر کرتی ہیں۔اور ہمیشہ آپنے کارکنوں کی حوصلہ افزائی کرتی ہیں۔
 میرا چونکہ براہ راست تعلق انکے ساتھ رہا ۔اور وہی ہماری باس تھی۔اسلئے ہر وقت ہمارا  واسطہ رہتا تھا۔نہایت شائستہ اور خوش اخلاق خاتون ہیں ۔میرا سالگرہ بھی انہیں یادتھا اور انہوں نے مجھے یاد دلآیا تھا۔جسکےلئے ایک قریبی ریسٹورانٹ میں ہم نے ایک تقریب بھی منعقد کی تھی۔جسمیں ہمارے سارے ساتھی شریک ہوگئے تھے۔جو مجھے ہمیشہ یاد رہے گا۔
   ۲) طاہرہ:      طاہرہ شعبہ اردو کی نائب  سربراہ ہیں۔متناسب قد کی مالک ،خوش پوش ،نفیس اور ہنس مکھ خاتون ہیں۔انکے چہرے پر صدا بہار مسکراہٹ پھیلی ہوتی ہیں۔انکی باتیں سن کر بڑا مزہ اتا تھا۔
             طاہرہ آپنے کام کے ساتھ اتنی ہی مخلص تھی جتنی کہ مہوش۔کام کو سلیقے سے کرنا وہ اچھی طرح جانتی تھی۔اسکے علاوہ سب لوگوں کے ساتھ مسکراکر ملنا اور ہنس ہنس کر کام کرتی نظر آئے گی۔ہمیشہ خوشگوار موڈ میں رہتی ہیں اور ہنسی مذاق بھی کرلیتی ہیں ۔ یہ خوبیاں انکی صدابہار جوانی کو مزید نکھار بخشتی ہیں۔
     بڑے دلچسپ اور دلنشین انداز میں گفتگو کرتی ہیں۔اور سارے دفتر پر چھایی رہتی ہیں۔
   شروع میں   ہم دونوں سی ار آئی   کی محفل پروگرام ترتیب دیا کرتے تھے ۔چونکہ انکی مصروفیت زیادہ تھی  اسلئے پرگرام کیلئے ریکارڈنگ میں کیا کرتا تھا۔آپنے سننے والوں میں بہت مقبول تھی انکی آواز گفتگو بہت شائستہ اور دوستانہ تھی۔ اور پروگرام میں تھوڑا بہت مزے کا عنصر بھی شامل ہوتا تھا۔جو پروگرام کو بور ہونے نہیں دیتا تھا۔وہ پروگرام میں تنوع کا بھی خیا ل رکھتی تھی۔
۳)زہرہ (دینگ دینگ):                           زہرہ  میرے  ساتھ عقب میں سیٹ پر کام کرتی تھی۔خوبصورت ،خوش شکل اور جوان تھی ۔ہمیشہ کوشش کرتی تھی کہ دوسروں سے منفرد نظرآئے۔اسکے لئے کپڑوں میں بھی انفرادیت پیدا کرنے کی کوشش کرتی تھی۔وہ جاذب نظر تھی ۔دفتر کے باہر اکثر کینٹین یا باہر راستے میں ہم ملتے تھے وہ آپنے لڑ کے کے ساتھ نظر آتی تھی میں کبھی کبھی انکے ساتھ مذاق بھی کیا کرتاتھا۔کہ اچھا لڑکا ڈھونڈا ہے۔وہ بھی جرمن زبان کے شعبہ میں کام کرتے تھے۔اور جب انکو جرمنی بھیجا جانے لگا تو انہوں نےشادی کرلی۔
          دینگ دینگ ہمیشہ چہرے کو مسکراہٹ سے سجائی رکھتی  تھی۔انکی بات کرنے کے انداز میں تھوڑا سا لا ابالی پن ہے۔ ایک د فعہ ہم ووچینگ کے دورے پر جانے لگے۔ووچینگ تیانجین کا حصہ اور نیا صنعتی شہر ہے جسکی ترقی کیلئے حکومت کوشاں ہے۔ہمیں وہاں جاکر شہر کو دیکھنے کے ساتھ ساتھ  اس پر پروگرام کرنے تھے۔انکو  کہا گیا تھا کہ ہم جاکے کام کریں گےتو انہوں نے ایک دن پہلے مجھے کہا کہ جناب ہم کام کرنے جارہے ہیں اور سیر کرنے نہیں جارہےہیں۔بات تو ٹھیک تھی مگر اگر یہ کہتی کہ جناب ہم سیر بھی کرینگے اور کام بھی تو زیادہ بہتر ہوتا۔اسی طرح اور کئی مواقع پر بھی ایسی ہی بات چیت ہوئی جس سے مجھے پھر انکے لا ابالی پن کا اندازہ ہوا۔بعض مواقع پر سنجید گی دکھا نا اور بالغ نظری سے کام لینا ضروری ہوتا ہے۔بھر حال زہرہ بہت ہی تعاؤن کرنے والی خاتون ہیں۔
            زہرہ اچھا ترجمہ کرتی تھی ۔جس دن انکو تبصرہ کا ترجمہ کرنا ہوتا تھا تو بہت محنت کرتی تھی اور انکا ترجمہ اچھا ہواکرتا تھا۔جبکہ دوسرے تراجم میں عجلت نمآیاں ہوتی تھی۔ لیکن انکو ابھی بھی بہت کچھ سیکھنے کی ضرورت ہے۔انکا مستقبل شاندار ہے۔ایک دن زہرہ نے مجھے فون کیا کہ جناب میں انتطار کر رہی ہوں اور برائے مہربانی ایک پروگرام کے ریکارڈنگ کیلئے آجائے۔میں کافی دور چلاگیا تھا ۔اتوار کا دن تھا ۔میں اور کمل لمسال سیر پر نکلے ہوئےتھے ۔جیسے انکا فون آیا میں پرگرام منسوخ کرکے دفتر آیا تھا۔جب میں آیا تو کوئی نہیں تھا پھر تھوڑی دیر کے بعد فراز یا غالباً طاہر یا اورکسی نے ریکارڈنگ کرلی تھی۔زہرہ خود چلی گئی تھی ۔میر انتظار بھی نہیں کیا تھا۔
 ۴)  محترمہ  مسرت:   اونچے قد کاٹھ کی مالک نہایت مہذب، مؤدب اورآرام سے بات کرنے والی،سانولی مائل گندمی رنگ،انکے ایک رخسار پر ڈمپل بھی بنتا ہے اسلئے انکی مسکراہٹ اور بھی خوبصورت بن جاتی ہے۔آپنے کام سے کام رکھنے والی اور سب کا احترام کرنیوالی ۔آپنے کام کو نہایت محنت اوربہت توجہ کے ساتھ کرتی تھی ۔کام کے وقت خاموش رہتی تھی اور کام کے دوران انکی آواز کبھی سنائی نہیں دیتی تھی ۔اچھا ترجمہ کرتی تھی ۔کافی ذمہ دار خاتون تھی۔شاید انکی ان خوبیوں کی بناء پر انہیں نسیم کے بعد پاکستان میں نمائندہ بنا کر بھیجا گیا۔ویسے یہ ضروری نہیں کہ یہ خوبیاں کسی کو نمائندہ بنانے میں کام آئے یہ محض میرا گماں ہے۔
 سی ار آئی   بڑا ادارہ ہے اور اسکا آپنا طریقہ کار ہے جسکے مطابق وہ کام کرتی ہے۔
          مسرت میرے ساتھ ایک دن ہسپتال گئی تھی۔جب میں پہلے پہلے بیجنگ آیا تھا تو میڈیکل رپورٹ بنانے کیلئے وہ ساتھ گئی تھی اور میڈم مہوش نے انکی ڈیوٹی لگائی  تھی ۔ تاکہ وہ میری مدد کرسکے۔اور میرے اور ڈاکٹر کے درمیان ترجمانی کرسکے۔مسرت بہت مخلص خاتون ہیں۔وہ اور زہرہ سی ار آئی میں غالبا ًاکھٹے آئےتھے۔اور دونوں اب ترقی کے راستے پر گامزن ہیں۔
 ۵) محترمہ سلیمہ :         یہ ایک خوبصورت خاتون ہیں ان سے پہلی ملاقات کام کے پہلے دن دفتر میں سرسری اور پھر ہم کینٹین اکھٹے گئے تھے میرے ساتھ محترمہ مسرت اور محترمہ سلیمہ گئیں تھیں اور کھانے پر کافی بات چیت ہم نے کی تھی۔انکی نئی نئی شادی ہوگئی تھی اور کچھ دن بعد وہ چھٹی پر چلی گئی تھی اسکے بعد انکے ہاں ایک بچہ بھی پیدا  ہواتھا۔جسکےلئے انہوں نے کافی لمبی چھٹی کی تھی۔آپناکام شوق سے کرتی تھی اور کافی محنتی خاتون ہیں۔انکو پھولوں اور پودوں کا بھی زیادہ شوق ہے کیونکہ انہوں نے آپنے ڈیسک پر خوبصورت پودے رکھے تھے ۔اس سے انکے جمالیاتی ذوق کا اندازہ ہوتا ہے۔
۶)محترمہ نسیم:  محترمہ نسیم صاحبہ سے پہلی ملاقات اسلام آباد میں ہوئی تھی۔جوان ،خوبصورت،اچھی اچھی باتیں کرنے والی خاتون ہیں۔نسیم محنتی خاتون اور آپناکام خوب کرتی ہیں۔انکے ساتھ براہ راست تعلق کم ہی رہا۔
     انٹر نیٹ پر کبھی کبھی رابطہ ہوا کرتا تھا۔اسکے علاوہ انکی رپورٹیں بہت نشر ہوتی تھیں۔انکی رپورٹیں  اور پاکستان میں انک رویہ سامعین کے ساتھ اچھا تھا۔جب میں چین جارہا تھا۔تو انہوں نے میری اور نوید کی دعوت بھی کی تھی انکے ساتھ انگریزی زبان کی نمائندہ ژانگ بھی اسمیں شریک تھی۔
     جب میں وآپس پاکستان آیا ۔تو مجھے وقت نہ مل سکا۔کیونکہ جو حالات یہاں پر گزرے تھے  کچھ اور مسائل بھی ایسے تھے کہ میں ان سے ملنے نہ جاسکا۔میں گاؤں گیا تھا جیسے وآپس آیا اور فون کیا تو وہ وآپس چین جاچکی تھی۔
۷)  جناب شاہین(چن شیانگ): شاہین کے ساتھ پہلی ملاقات چائنا ریڈیو انٹرنیشنل کیلئے ٹسٹ اور انٹر ویو کے وقت ہوا۔شاہین ایک خوبصورت سرخ سفید رنگ گول تر وتازہ مٹول چہرہ ،چینی سٹائل کے  کھڑے بال،میانہ قد ،اور بھرے ہوئے اور سڈول جسم کے  مالک ہیں۔
انکا انداز گفتگو بہت صاف واضح اور دوستانہ ہے۔انکی خوبی یہ ہے کہ جلدی دوست بن جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں انکے بہت سارے دوست بن گئے ہیں۔اور لوگ انکو بہت چاہتے ہیں۔شاہین پاکستان سے بھی بہت محبت کرتے ہیں جو انکی پاک چین دوستی کیلئے خدمات کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
     انکے ساتھ چونکہ پاکستان میں میری ملاقاتیں ہوتی رہیں یہی وجہ ہے کہ ہمارے درمیان  بے تکلفی بھی ہوگئی  تھی۔شاہین کی اردو بہت اچھی ہے اور بات کو بھی جلدی سمجھ لیتے ہیں ۔شاہین ایک اچھے اور بہترین ترجمان بھی ہیں ۔ایک دفع پاکستان کے سفیر جناب مسعود خان سی ار آئی تشریف لائے۔اور انہوں نے سی ار آئی کے سربراہ کے      ساتھ ملاقات کرنی تھی جب ہم بیٹھ گئے تو مسعوخان صاحب نے پوچھا کہ کس زبان میں بات کریں گے میں نے  عرض کیا کہ آپ اردو میں بات کریں کیونکہ یہ آپنی قومی زبان میں بولیں گے ۔اسلئے دونوں صورتوں میں ترجمان کی ضرورت ہوگی چنانچہ شاہین نے ار دو سے چینی اور چینی سے اردو میں مترجم کی حیثیت سے خدمات سرانجام دیں۔مجھے شاہین کی قابلیت کا اندازہ ہوا کہ انکو اردو پر کافی حد تک عبور حاصل ہیں۔کیونکہ ایک تو جناب مسعود خان نے بہت ہی اچھی  اردو زبان میں بات کی اور شاہین نے نہایت آسانی اور روانی سے چینی میں ترجمہ کیا اور اسی طرح انہوں نے چینی سے اردو میں بغیر اٹکے اور بغیر جھجھک کے روانی سے اچھی اردو میں ترجمہ کیا۔
 اسکے علاوہ شاہین کام کو بہت محنت کے ساتھ کرتے ہیں ۔اور بہت ہی مدد گار قسم کے آدمی ہیں۔مجھے جب بھی ضرورت پڑتی تھی میں انکو موبائل پر فون کرتا تھا اور انہوں نے ہمیشہ خندہ پیشانی سے مدد فرمائی ہے۔
   شاہین چینی ثقافت کے بارے میں اچھی طرح معلوما ت دیتے تھے ۔کبھی کبھی میں ان سے کچھ پوچھتا تھا تو فوراً انٹرنیٹ پر معلومات اکھٹی کرکے مجھےبتاتے تھے۔میرا  اور شاہین کا ساتھ دورہ شنجیانگ کے دوران بھی رہا۔ہم اکھٹے رپورٹ تیار کرکے اسی دن  میں نشر کیا کرتے تھے۔ میں نے دیکھا کہ وہ رات بہت دیر گئےتک رپورٹ مرتب  کرنے میں مصروف ہوتے تھے۔اردو میں تو ہم اسی وقت رپورٹ تیار کرکے دیا کرتے تھے اور نشر بھی ہوجاتی تھی۔لیکن چینی میں بھی وہ سارے دن کی رپورٹ مرتب کرتے تھے۔اگر میں  کچھ اردو میں لکھتا یا بتاتا تھا۔یا ہم کوئی انٹرویو لیتے تھے تو وہ اسے بھی چینی زبان میں ترانسکرایب (چینی میں لکھا ہوا ترجمہ) کرتے تھے۔اور یہ سارا کام وہ رات کو اسوقت کرتے تھے جب ہم آپنی رپوٹنگ ختم کرتے تھے۔جسمیں کبھی کبھی رات کے دو بج جاتے تھے۔  لیکن اگلے دن صبح سویرے جاگ چکے ہوتے اور مجھے اطلاع کرتے کہ تیار ہوجاؤ۔ انہوں نے ہر طرح سے میری مدد کی تھی شاہین ایک ہنس مکھ اور خوش گفتار انسان ہے ہماری دعا ہے کہ دن دوگنی اور رات چوگنی ترقی کرے۔ شاہین  کے ساتھ گزارا  ہوا وقت مجھے زندگی بھر یاد رہےگا۔
۷) جناب لیو شاوخوی :         جناب لیو شاو خوی کا جسم سوکھا ،رنگ ساونلاہے۔خاموش طبع اور ہر وقت اپنے کام میں منہمک رہنے والا انسان ہے۔صبح سویرے دفتر آیا کرتے تھے اور عموماً دیر سے جآیا کرتے تھے۔نہایت سادہ اور مخلص آدمی ہیں انکے ساتھ ایک سال تک پروگرام سی ار آئی کی محفل کرتا رہا ۔اس دوران میں نے انکو آپنے کام کے ساتھ کافی مخلص پآیا۔تمام خطوں کے جواب دیا کرتے تھے۔لوگوں کے انٹر ویوز ریکارڈ کرنے میں زیادہ وقت  لیا کرتے تھے۔
لیو شاو خوی سے میں نے بہت کچھ سیکھا۔ویسے تو اردو شعبہ کے تمام کارکن میرے اساتذہ ہیں کیونکہ ہرایک سے میں نے بہت کچھ سیکھا ہے۔لیکن لیو شاو خوی نے مجھے چینی کمیوزم،ثقافتی انقلاب،چینی مذاہب اور دیگر ثقافتی زندگی کے بارے میں بہت کچھ بتایا۔بعض اوقات میں بھی ان سے طرح طرح کے سوالات پوچھا کرتا تھا ۔ اور وہ ہمیشہ خندہ پیشانی اور تفصیل کے ساتھ جوابات دیا کرتے تھے۔میں انکا بہت احترام کرتا تھا ۔بس ایک گستاخی اکثر مجھ سے ہوجآیا کرتی تھی کہ میں انکے آرام میں خلل ڈالتا تھا۔وجہ یہ تھی کہ انکا گھر دور تھا دو پہر کے وقفے کے دوران وہ دفتر میں سویا کرتے تھے اور ہمیشہ میں آکر انکو   جگآیا کرتا تھا جسکا مجھے نہایت افسوسس ہوتا تھا مگردوسرا  چارہ نہیں ۔۔۔۔۔ امید ہے کہ انہوں نے میری گستاخی معاف کی ہوگی۔۔۔
                   لیوشاو خوی ہمیشہ آرام سے ٹہر کر بات کرنیوالے انسان ہیں۔اور سننا بھی اس طرح پسند کرتے تھے۔کہ کوئی ان سے بات کرے تو آرام سے کرے تاکہ وہ اسے سمجھ سکے ۔میرا خیال ہے کہ ابھی تک انکو ترقی بھی مل گئی ہو گی۔وہ چینی مزاح پر کافی دسترس رکھتے تھے۔اور خوشی کےساتھ بناتے تھے۔انکا مطالعہ کافی وسیع ہے۔کیونکہ انکے ساتھ بہت سارے علمی موضوعات پر بھی بحث و مباحثہ ہوا کرتا تھا۔
۸)  سرفراز(وو):  سرفراز  پہلا شخص تھا جنکے ساتھ میری پہلی ملاقات بیجنگ کے ہوائی اڈے پر ہوئی تھی۔ سرفراز نوجوان ہیں اور انہوں نے ابھی ابھی ایک سال ہواتھا جب انہوں نے سی ار آئی میں ملازمت اختیار کی تھی۔اردو  دقت کے ساتھ بولتے تھے۔کیونکہ انہوں نے یونیورسٹی سے تعلیم اردو میں حاصل نہیں کی تھی۔لیکن پھر بھی انہوں نے جلدی سیکھی ہے ۔جناب سرفراز  بہت محنتی نوجوان ہیں۔میں نے انکو دیکھا ہے کہ آرام کئے بغیر سارا دن اور ساری رات محنت کرتے ہیں۔
      سرفراز صاحب ابھی جوان ہیں صاف رنگت اور چوڑے چہرے کے مالک ہیں قد گو کہ زیادہ اونچا نہیں لیکن پستہ قد بھی نہیں ہیں۔بات ٹہر ٹہر کر کرتے ہیں۔خوش لباس ہےاور ہر وقت اچھے کپڑوں میں ملبوس ہوتا ہے۔جب میری بات انکی سمجھ میں نہ آتی پھر میں انکے ساتھ انگریزی میں بات کرتا تھا۔انکی اردو سیکھنے کی رفتار خاصی اچھی تھی ۔
   میرے ساتھ جب کبھی کام کرتے یا کہیں جانا ہوتا تھا تو فوراً  مہوش کو فون کرکے ان سے اجازت لیتے تھے۔مجھے انکی یہ بات بہت پسند آئی تھی۔کہ ہر بات پوچھ کر کرتے ہیں اور آپنے باس کو خبر رکھتے ہیں۔
       چینی قوم کی یہ خصوصیت شاید کسی دوسری قوم کے حصے میں آئی ہو۔کہ آپنے باس کی تابعداری کرتے ہیں اور کوئی سوال نہیں کرتے۔مجھے ردہارد کپلینگ کے جنگل بک کی ایک کہانی یاد آرہی ہے ۔جسمیں نظم و ضبط اور نظم و نسق کے بارے میں بتایا گیا ہے۔اس کہانی میں انہوں نے یہ سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ جو قومیں نظم ونسق کی پابندی نہیں کرتے وہ ہمیشہ دوسروں کے محتاج ہوتے ہیں۔اور اسکی مثال ایشیاء میں موجود ہیں۔لیکن چینی قوم نے یہ راز پالی ہے۔کنفیوشس کے فلسفۂ میں بھی اس بنیادی بات کو سمجھآیا گیا ہے کہ نظم و نسق اور آپنے امیروں کی فرمانبرداری ہی ترقی ہم آہنگی اور نظم و ضبط ہی ترقی کے راستہ پر لیجاتی ہے۔
 بحیثیت قوم چینیوں میں یہ بات بڑی اہم ہے کہ وہ ہمیشہ آپنے بادشاہوں کے وفادار اور فرمانبردار رہے ہیں۔جناب سرفراز میرے سٹوڈنٹ بھی رہے اس دوران میں نے بھی ان سے بہت کچھ سیکھا۔انکی اردو میں روانی کیلئےمیڈم مہوش نے کہا تھا کہ انکے ساتھ اردو بولو اور انکو کام دو تاکہ یہ روانی سے اردو سمجھنے اور بولنے لگے۔اسی لئےمیں انکو چینی ثقافت اور زندگی اور تاریخ کے بارے میں اسائنمنٹ دیا کرتا تھا جسے یہ اردو میں لکھ کر لاتے تھے اور پھر مجھے سناتے تھے۔اس طرح انکی اردو کے بہتر ہونے کے ساتھ ساتھ آپنے خیالات کا اظہار کرنے کیلئے اچھے الفاظ کا انتخاب بھی میں انکو سکھاتا تھا۔اور یہ لوگ بڑے محنت کے ساتھ کام کرتے تھے۔انکے ساتھ میرا دوسرا شاگرد فراز تھا۔
۹)فراز:        فراز بھی سرفراز کی طرح نوجوان ہیں اور  انہوں نے اکھٹا سی ار آئی   میں ملازمت اختیار کی تھی۔فراز بھی بہت زیرک محنتی اور ہونہار نوجوان ہیں۔وہ بھی میرے شاگرد رہے اور ہم ایک دوسرے سے سیکھتے رہے۔وہ قابل لڑکا ہے ۔وہ آپنے ذمہ داریوں کے ساتھ دفتر کے دوسرے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے اسلئے انہیں پورے دفتر میں پزیرائی ملتی تھی اور وہ سی ار آئی کے ہر دلعزیز شخصیت بن گئے تھے۔فراز دراز قد  ،سمارٹ،اور چابک دست نوجوان ہیں۔سانولی رگت اور سوکھے بدن کے مالک ہیں۔
    فراز ایک دن صبح میرے گھر آئے اور مجھے با دا چو (Bیعنی اٹھ بڑے جگہیں) لے گئے۔اتوار کا دن تھا اور مجھے بہت اچھا لگا۔ہم آپنے ساتھ پانی لےگئے تھے۔بس کے ذریعے جب ہم آپنے سٹاف پہنچ گئے تو وہاں سے اوپر جانےکیلئے چیر لفٹ بھی تھے اور پیدل راستہ بھی تھا۔ہم نے پیدل راستے کا انتخاب کیا تھا۔اور ان قدیم جگہوں کو دیکھا تھا۔یہاں پر بدھ کے بڑے بڑے مجسمے لگائے گئے تھے اور کچھ بدھ مت کے ماننے والے  وہاں سجدے بھی کرتے تھے۔ہم نے سارے آٹھوں مقامات دیکھ لئے تھے  ۔یہ علاقہ بھی پہاڑوں کے دامن میں واقع ہے اور بہت اچھی پُر سکون جگہ ہے۔بدھ مت کے ماننے والے مراقبہ کیلئے ہمیشہ ایسی ہی جگہوں کا انتخاب کیا کرتے تھے۔ہم پہاڑی کی چوٹی پر گئے اور آرام سے دوسرے راستے پر وآپس آگئے ۔ جب میں وآپس آیا اور کمل کو بتایا تو انہوں نے کہا کہ میں یہ دیکھ چکا ہوں۔اور پھر انہوں نے آپنے پرگرام چین میری نظر میں کیلئے میرے تاثرات بھی ریکارڈ کئے ۔وہ یہ پروگرام خود کیا کرتاتھا۔
 فراز صاحب ہی پہلے شخص تھے جو مجھے ایک دن کہنے لگے کہ او اج میں آپکو نیوجیہ کی مسجد دکھاتا ہوں اور خوی مسلمانوں کا ایک کھانا بھی آپکو کھلاوں گا۔اسی طرح انہوں نے مجھے بس اور سب وے کےذریعے نیو جیہ جانے کا راستہ بھی بتایا۔نیوجیہ اور  مسلمانوں کے اس علاقے کی خوب سیر ہم نے کی تھی۔وہاں پر انہوں نے مجھے ایک عجائب گھر بھی دکھائی تھی جسمیں خصوصی طور پر بیجنگ اوپیرا کی روایتی لباس اور استعمال میں آنے والی چیزیں نمائش کیلئے رکھی گئیں تھیں۔مجھے یہ جگہ بہت پسند آئی تھی۔
  غر ض ان نوجوانوں میں بہت زیادہ صلاحیتیں موجود ہیں اور یہ چین کے مستقبل کا سرمایہ ہیں۔ان دونوں نے پاکستان بھی آنا تھا ۔میں انکے پاکستان آنے کیلئے منتظر ہوں۔جب میں آرہا تھا تو یہ دونوں نوجوان خبریں ترجمہ کرنے لگے تھے اور اُمید ہے کہ اب بہت بہتر ہوگئے ہونگے۔
۱۰)طاہر:  یہ نوجوان نیا نیا آیا تھا اور بہت محنتی تھا۔بہت ہی کم گو اور ہر وقت مصروف نظرآتا تھا۔انکے کام کا شوق دیکھ کر اندازہ ہوتا تھا کہ یہ بہت جلد ترقی کرے گا کیونکہ بہت تیزی کےساتھ یہ ہمارے ساتھ کام میں شامل ہوگیا تھا۔اور اسکے کام کے نتایج حوصلہ افزا تھے۔بہت ہی تابعدار نوجوان تھا ۔مجھے جب بھی کوئی مسئلہ پیش آتا تھا میں انکو فون کرتا تھا۔اور یہ فوراً مدد کیلئے تیار ہوتے تھے۔آپنے سب ہم کاروں کی بہت عزت کرتا تھا اور بات آسانی سے سمجھ جاتا تھا۔کوئی بات انکو میں ایک دفع کرتا تھا اور کم سیکھاتا تھا تو پھر کبھی وہی غلطی نہیں کرتا تھا۔
۱۱) محمد جمیل الرحمن: یہ نوجوان نیا نیا آیا تھا ۔بہت ہی محنتی کارکن تھا۔بہت سادھا کپڑوں میں ملبوس ہوتا تھا۔کام سے کام رکھنے والا نوجوان ہے۔ان میں یہ خوبی تھی کہ اگر آپ کچھ پوچھیں گے تو جواب دے گا ورنہ خاموش ہی رہتا تھا۔کام میں کوتاہی نہیں کرتا تھا۔اور یہ بھی معمول کے کام میں شامل ہوگیا تھا۔اب اُمید ہے کہ اچھا کام کرر ہا ہوگا۔
 ۱۲) پروفیسر لو( لو شوے لِن):          پروفیسر لو کا  نام میں نے پاکستان  میں سنا تھا  اور  انکے ساتھ ملاقات کا میں بہت مشتاق تھا۔کیونکہ ایک دفع تاریخ کے حوالے سے میں نے نسیم کے ساتھ بات کی تھی تو انہوں نے بتایا تھا کہ پروفیسر لو صاحب ان سب چیزوں کے بارے میں جانتے ہیں کیونکہ وہ کتابیں بھی لکھتے ہیں۔ اسکے علاوہ بھی علمی حلقوں میں انکا تذکرہ رہتا تھا۔
 جب میں بیجنگ آیا تو بھی ان سے ملنے کیلئے میرا  اشتیاق بڑھ گیا  جب سب  لوگو ں  نے انکے بارے میں اچھے الفاظ سے تذکرہ کیا۔اور یوں ان سے ایک دن ملاقات ہوگئی۔انکو پہلی نظر میں دیکھ کر مجھے اندازہ ہوا تھا کہ ہو نہ ہو یہی پروفیسر لو صاحب ہیں۔اور جب میں نے ان سے بات چیت کرلی تو مجھے انکے علمیت کا اندازہ ہوا۔اور پاکستان میں جن شخصیات کا انہوں نے ذکر کیا تھا وہ واقعی علم رکھنے والے لوگ تھے اسلئےمیں انکااور بھی مداح  ہوگیا۔
   پروفیسر لو صاحب کی عمر ساٹھ سال سے زیادہ ہے ۔ملازمت سے سبکدوش ہوگئے ہی۔لیکن پھر بھی انکی خدمات حاصل کیجاتی ہیں۔وہ مختلف قسم کی کتابوں کے ترجمے بھی کرچکے ہیں اور مزید بھی کرنا چاہتے ہیں۔
    پروفیسر لو صاحب انتہائی منکسرالمزاج انسان ہیں۔بہت سوچ سمجھ کر بات کرتے ہیں۔اور دوسرے کی بات غور سے سنتے ہیں آپنے مخاطب کو اہمیت دیتے ہیں۔انہوں نے تاریخ  کا بھی کافی مطالعہ کیا ہے خصوصی طورپر پاکستان کے شمالی علاقہ جات کے حوالے سے۔ابھی انہوں نے چینی اردو  ڈکشنری پر بھی کافی کام کیا ہے اور انکے خدمات کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔اردو سروس والے بھی ہربات میں انکی رائے کو اہمیت دیتے ہیں۔ میں خود انکی علم کا معترف ہوں۔ اور انکی خدمات کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہوں۔ انہوں نے مطالعہ پاکستان کا بھی خوب مطالعہ کیا ہے۔اور پاکستان کی سیاست اور حالات پر گہری نظر رکھتے ہیں ۔اور کافی بالغ نظری اور دور اندیشی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔
۱۳)محترمہ رضیہ( میڈم سونگ) :      محترمہ رضیہ (میڈم سونگ)  بہت ملنسار اور با رعب خاتون ہیں۔ وہ شعبہ اردو کی سربراہ بھی رہ چکی ہیں اور پاکستان میں بھی خدمات سرانجام دے چکی ہیں۔وہ بھی چین پاک دوستی کی رکھوالی  ہیں ۔انہوں نے شعبہ اردو  میں کافی خدمات انجام دی ہیں۔اور پروگراموں کی ترقی مین انکا  بہت بڑا حصہ اور ہاتھ ہے۔انہوں نے ہمیشہ نئے پروگراموں کی حوصلہ افزائی کی ہیں۔ مجھے  بتایا گیا تھا کہ انہوں نے ہمیشہ کوشش کی ہے کہ نیا پروگرام شروع ہو اور ترقی کرے۔اس سلسلہ میں وہ ہمیشہ نئے آنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتی ہیں۔جب تک میں موجود رہا ۔میں نے دیکھا کہ وہ سرفراز اور فراز  دونوں کی حوصلہ افزائی کے ساتھ ساتھ انکی رہنمائی بھی کرتی رہی ہیں۔ان پر کافی توجہ دیا کرتی تھی۔وہ اردو زبان کی صحت کا خیال رکھتی تھیں۔     زبان کی گرائمر کو بہت اہمیت دیتی تھی۔             انکا رویہ بہت دوستانہ ہوا کرتا تھا۔سب کے ساتھ شفقت سے پیش آیا کرتی تھی۔جب بھی دفتر تشریف لاتی تھی آپنے ساتھ کھانے کا کچھ نہ کچھ ضرور لآیا کرتی تھی۔اور اسمیں ہمارا حصہ ضرور کیا کرتی تھی۔اور ہمیشہ ہمارے ساتھ بہت محبت کے ساتھ پیش آئی تھی۔انکا ترجمہ بھی خوب تھا ۔اور بہت روانی کے ساتھ ترجمہ کرکے مسودہ تیارکرتی تھی۔آسان ،روان اور سلیس زبان کا استعمال کیا کرتی تھی ۔
 ۱۴) محترمہ شاہینہ:   شاہینہ بھی ملازمت سے سبک دوش ہوچکی تھیں مگر پھر بھی انکی خدمات سی ار آئی حاصل کرتی رہی۔اس محکمہ  کی یہ ادا بہت پیاری ہے کہ آپنے پیاروں کو بھولتی نہیں ہے۔ اور ملازمت سے سبکدوشی کے بعد بھی انکو مصروف رکھتی ہے۔اسطرح دونوں کا فائدہ ہوتا ہے۔محترمہ شاہینہ بھی پاکستان میں رہ چکی ہیں اور پاکستان کو یاد کرتی تھی۔ شاہینہ کی شخصیت بہت پر وقار تھی وہ ہمیشہ مسکراتی ہوئی آتی تھی اور سب کا حال معلوم کرتی تھی۔بہت پیارے انداز میں بات کیا کرتی تھی۔ویسے سی ار آئی کی خصو صا ًاور عام چینی عموما ً جو ملازمت سے سبکدوش ہوگئے ہو یا اس عمر میں ہو۔بہت ادب اداب اور رکھ رکھا و والے ہوتے ہیں۔جب بات کرتے ہیں تو بہت وقار اور پیا ر سے کرتے ہیں اور اگر مخاطب کچھ کہے تو اسکو اہمیت دیتے ہیں یعنی غور سے سنتے ہیں۔
   شاہینہ بہت ہی اچھی خاتون تھی ہم مذاح بھی کیا کرتے تھے ۔وہ میرے ساتھ والے ڈسک پر بیٹھتی تھی اور میں اکثر انک خدمات حاصل کرتاتھا۔کام کے دوران بھی وہ میری مدد کرتی تھی اور میں نے کبھی انکے ماتھے پر شکن نہیں دیکھے۔وہ بہت مدد کرنےوالی خاتون تھیں۔جس دن وہ کام پرآاتی تھی میں ویسے ہی خوشی محسوس کرتا تھا۔۔۔    اللہ ان سب کو خوش رکھے۔
۱۵ ) محترمہ تونگ:               میڈم تونگ بھی ملازمت سے سبکدوش ہوگئ تھی لیکن کام کرنے کیلئے تشریف لآیا کرتی تھی میرے آخری دنوں میں انہوں نے معذرت ظاہر کی تھی اور آرام کی متمنی تھی۔انکا ترجمہ لاجواب ہوتا تھا ۔بہت ہی قابل اور زبان پر عبور رکھنے والی خاتو ن تھی نہایت ہی کم گو تھی۔بس آکر کام کرتی تھی اور ختم کرکے چلی جاتی تھی۔ہمارے کھانوں یا تقاریب میں بہت ہی کم شرکت فرماتی تھی ۔جبکہ شاہینہ بھر پور ساتھ دیا کرتی تھی۔
                    
  

دوست و احباب
میں نے دوست احباب کم بنائے لیکن جو دوست احباب کے حلقے میں ایک دفعہ شامل ہوگئے تو پھر انکے ساتھ اچھے تعلقات رہے ہیں۔جسطرح  کہ شروع میں میں نے عرض کیا ہے کہ میرا پہلا دوست جو شخص بنا وہ چینی تھا چینی زبان کے علاوہ دوسری زبان نہیں سمجھتا تھا۔وہ ہمارے یونگلہ کے سیکورٹی آفیسرتھے۔
  میں آپکو بتاتا چلوں کہ چین میں ہر عمارت پر ایک محاٖفظ ہوتا ہے اورآنے جانے والوں پر نگاہ رکھتا ہے۔تمام  رہائشی عمارات کے اندر جانے والے راستوں میں محافط کیلئے دفتر بنا یاجاتا ہے اور یہاں سے وہ ہر ایک پر نظر رکھتاہے۔
      جس عمارت  میں میں نے گھر یا دوسرے لفظوں میں آپارٹمنٹ لی تھی اسکا نام یونگلہ شی شیاو چو58(58xi xiao qu gleyon ) تھا۔اور اسکے محافظوں میں ایک سکیورٹی آفیسر گیونگ تھا۔جو کہ میرا دوست بن گیا تھا۔انکا قد درمیانہ تھا نہ وہ پستہ قد تھا اور نہ دراز قد ۔صبح شام آتے جاتے ان سے بات چیت ہونے لگی ۔اشاروں سے باتیں کرتے تھے اور ساتھ ساتھ میں ان سے چینی زبان بھی سیکھنے لگا اسی طرح ان سے میں نے کافی زبان سیکھ لی تھی اور آپنا گذارا کرتا تھا۔
  انکے بعد جو آدمی میرا  دوست بنا وہ نیپالی تھا۔انکا نام کمل لمسال تھا  اور نیپالی زبان کے سروس میں کام کرتا تھا۔وہ میرا اچھا دوست تھا لیکن چھہ مہینے تک اکھٹے رہے اور اسکے بعد وہ پانچ سال کام کرنے کے بعد وآپس نیپال چلا گیا کمل اور میں اردو میں باتیں کرتے تھے اسلئےہمیں ایک دوسرے سمجھنے میں آسانی تھی۔میرے آنے کے بعد جلد ہی انہوں نےہمارے یونگلہ میں مکان  یعنی فلیٹ  کرایہ پر لیا اور یوں ہم ایک عمارت میں رہنے لگے انکا فلیٹ چوتھے منزل پر تھا اور میرا چھٹے منزل پر تھا۔اسلئے ہم دونوں چونکہ تنہا تھے اسلئے گھومنے پھرنے کیلئے ہمارے پاس کافی وقت تھا ۔اور ہم نے اسکا خوب فائدہ اٹھایا۔
                 کمل لمسال چونکہ ساڑھے چار سال یہاں رہے تھے کچھ عرصہ انکی بیگم بھی انکے ساتھ بیجنگ میں تھی پھر گھریلو مسائل کی وجہ سےانہیں    وآپس نیپال جانا پڑااور کمل  اکیلا رہ گیا تھا۔چونکہ کمل نے بیجنگ کو کافی حد تک دیکھ لیا تھا۔اسلئے ہمیں گھومنے پھرنے کوئی خاص مشکل پیش نہیں آئی تھی اور ہم نے مل کر بیجنگ کی خوب سیر کی تھی۔
             کمل لمسال بہت ہی محب وطن اور رکھ رکھاو والا آدمی تھا۔آپنا کام کافی محنت کے ساتھ کرتا تھا۔وہ چاہ رہا تھا کہ اسے بیجنگ اولمپیک کھیلوں تک رہنے دیا جائے مگر ایسا ممکن نہ تھا کیونکہ انکو پانچ سال ہونے کے تھے اور criپانچ سال سے زیادہ کسی کو کام کیلئے نہیں رکھتی۔ہاں کچھ عرصہ کیلئے وطن وآپس جاکر پھر کام کیلئے  چاہے تو  بلا سکتے  ہیں۔ کمل چینی زبان بھی جانتا تھا۔گو کہ انکی چینی اتنی اچھی نہ تھی مگر پھر بھی اس سے ہمیں سہولت تھی۔میں ان پر رشک بھی کیا کرتاتھا۔کہ انکو زبان سمجھ میں آئی ہے اور مقامی لوگوں کے ساتھ باتیں کرلیتا ہے۔اسلئےمیں خود بھی زبان سیکھنے کی کوشش کررہا تھا۔
جناب خوشحال تایب  افغان تھا اور پشتو سروس میں کام کرتاتھاایک دن میں نے آپنے چینی ساتھیوں سے کہا کہ میں پشتو سروس والے سے ملنا چاہتا ہوں ۔وہ میرے ساتھ گئےاور مجھے ان سے ملوآیا۔خوشحال تایب اچھے انسان تھے درمیانہ قد کے تھے جسم تھوڑا سا فربہ تھا اور ٹہر ٹہر کر بات کرتا تھا۔ہم دونوں کی اچھی خاصی دوستی ہوگئی جو ایک حد سے زیادہ تو نہ بڑھ سکی لیکن ہم ایک دوسرے کے ساتھ ہمدردی رکھتے تھےاور اکثرو بیشتر ملاقاتیں کرتے تھے۔کبھی کبھی باہر اکھٹے نکلتے تھے گھومنے پھرنے کیلئے۔اور خصوصی جمعہ کے دن جمعہ پڑھنے کیلئے ہم اکھٹے جآیا کرتے تھے۔خوشحال تایب نے مجھے چینی زبان سیکھانے کیلئے ایک ٹیچر کا بھی انتظام کیا تھا مگر یہ سلسلہ چند کلاسوں سے زیادہ نہ بڑھ سکا۔ وہ ٹیچر آپنے پیسوں کے دن پابندی سے آیا کرتی تھی مگر باقی خیر تھا اور فراغت میں آتی تھی اسلئے دو چار کلاسوں سے بات آگے نہ بڑھ سکی۔
          تامل سروس کے بھارتی ماہر کلیٹس اور انکے دوسرے ساتھی کے ساتھ بس رسمی سا  تعلق  تک ہی رہا۔اس سے زیادہ میں نے انکو موقع نہیں  دیا کیونکہ وہ عمر سے تو پختہ تھا مگر کبھی کبھار بچوں کی سی حرکتیں کرتا تھا۔
   ہندی سروس کے ماہر راکھیش کے ساتھ تعلق صرف ہو ہایٔ تک محدود رہا۔ ہمیں ملنے کا موقع بہت ہی کم ملتا تھا۔
               ایرانی  سروس یا دیگر لفظوں میں فارسی سروس کے ماہر کے ساتھ کافی گپ شپ ہوجآیا کرتی تھی۔وہ بہت  ہی کم گو  اور آزاد خیال تھے ۔پینے پلانے کے شوقین تھے انکے ساتھ  گھومنے پھرنے کا تعلق نہ بن سکا۔مگر یہ کہ جب بھی ملتے تھے اچھی طرح ملتےتھے،وہ پستہ قد،صاف  گندمی رنگت  اور ہر وقت فلاسفر کی طرح سوچوں میں گم رہتے  تھے۔انکا تعلق تہران سے تھا۔
احمد عربی سروس میں کام کرتے تھے۔بہت ہی آزاد خیال تھے مذہب کی پابندی نہیں کرتے تھے ،گپ شپ کے خوب ماہر تھے مگر جو کچھ کہتے تھے اس پر سوچتے کم تھے اور ہروقت اسی کوشش میں ہوتے تھے کہ لوگ انکو آزاد خیال سمجھے اسلئے کھانے پینےمیں حرام حلال کی تکلف سے بے نیاز تھے۔لڑکیوں کے بڑے شائق تھے ۔یہ بھی چھوٹے قد کاٹ کے تھےانکا رنگ سرخ سفید اورعمر تقریباً پچپن اور ساٹھ کے درمیان تھی۔انکا تعلق مصر سے تھا۔اور آخر میں جب اسکے جانے کا وقت آیا تھا تو بہک بہک کر باتیں بھی کرتے تھے ایک دن نقیب اللہ نے مجھ سے پوچھا کہ اسکو کیا ہوگیا ہے۔شاید مایوسی یا ضعیف العمری کی وجہ تھی۔وجہ جو بھی ہو یہ آہستہ آہستہ ضعیف الدماغ ہوتے جارہے تھے۔
          ترکی سروس کے آغا ۔۔۔۔جنکا نام میں ہمیشہ بھول جآیا کرتا تھا۔ آج بھی وہی مسئلہ درپیش ہے یہ اونچھے اور موٹے تروتازہ تھے ۔انکی بیگم کا تعلق ناروے سے تھا یہ بہت گپ شپ کے شائق تھے اور بات وزنی کیا کرتے تھے اسلام کے بارے میں انکا مطالعہ کم تھا۔ملک سے زیادہ تر باہر رہے تھے۔قوم پرست تھےسب کو عزت دینے والے تھے اور ہمیشہ میرے ساتھ مذہب کے معاملے پر  بحث کیا کرتے تھے۔اور معلومات حاصل کرنا چاہتے تھے۔شنجیانگ کے دورے کے دوران انہوں نے مجھے بتایا کہ احمد کہتا ہے کہ قرآن میں شراب کی حرمت کے حوالے سے واضح حکم نہیں ہیں تو مجھے بہت دکھ بھی ہوا اور حیرت بھی۔
     پھر انکو میں نے قرآن میں آیات نکال کر دکھائے اور کہا کہ اب آپکی مرضی ہے جس راستے پر بھی جاتے ہو اللہ کے بتائےہوئے پر یا شیطان کے راستے پر۔فوراً  توبہ کیا ۔
عباس رضا بھی عربی زبان کے شعبے میں کام کرتا تھا انکا تعلق عراق سے تھایہ بہت ہی ملنسار،پیار سے بات کرنےوالا ،مذہب کی طرف مائل اور محتاط تھے۔انکے ساتھ بات کرنے میں مزہ آتا تھا۔یہ کمل کو بھی پسند تھا۔ہمارا اچھا تعلق رہا اور اکثر گپ شپ ہوجآیا کرتی تھی۔انکو غالباًشینخوا والوں نے بھی کام دیا تھا اسلئے سی آر آئی چھوڑنے کے بعد انکے ساتھ کام کرنے لگے تھے۔
  صلا ح الدین بنگالی شعبہ میں کام کرتے تھے۔وہ بہت زیا دہ باتیں کرتے تھے انکوعر صہ ہوگیا تھا انکے بال لمبے قد اونچی اور سوکھے سے اور سانولے تھے۔اکثر ڈیوٹی کے دوران ملا کرتے تھے اور خوب باتیں کرتے تھے۔
 اومیت بھی بنگالی تھا سگریٹ سے سگریٹ سلگآیا کرتا تھا اور ہر وقت پریشان رہا کرتا تھا۔درمیانہ قد کے مالک تھے اور ہمارے ساتھ زیادہ باتوں سے پرہیز کرتے تھےایک سال گزارنے کے بعد وآپس چلے گئے تھے۔
    آیاز صاحب بھی پشتو سروس میں آگئے تھے ہماری خاصی دوستی ہوگئی تھی اور اکثر ملا کرتے تھے ،خوشحال تایب کے بعد وہ اکیلے رہ گئے تھے جب انکا دوسرا ساتھی آیا تو پھر وہ بھی افغانستان چلے گئے تھے ۔۔یہ مارشل آرٹس کے بھی ماہر تھے اور بلیک بیلٹ  جیتنے والے تھے ۔جب پشتو سروس میں نقیب اللہ آگئے  تو یہ پھر وآپس آپنے ملک چلےگئے تھے۔ان سب کے علاوہ اور بھی بہت سارے دوست تھے جنکا تعلق مختلف ممالک سے تھا۔ہم اکثر ملتے رہتے تھے۔
چائنا ریڈیو انٹر نیشنل ایک بین الاقوامی حیثیت کی حامل ادارہ ہے۔اسمیں پوری دنیا کے نمائندے کام کرتے ہیں مختلف ثقافتوں،تہذیبوں اور زبانوں کے نمائندے یہاں کام کرتے ہیں ۔سی آر آئی کی عمارت اس گلدان کی سی  ہے جسمیں رنگ برنگے پھول رکھے ہوں اور وہ آپنے عطر اور خوشبو سے پورے ماحول کو معطر رکھتے ہیں۔یہ ایک چھوٹی سی دنیا ہے جسمیں آپکو دنیاکےمختلف زبانیں بولنے والے مل جائیں گے۔یہ سارے لوگ آپنے میدان کے ماہر تعلیم یافتہ سلجھے ہوئے اور با سلیقہ ہوتے ہیں۔ یہ ایک ایسی دنیا ہے جسمیں آپکو پوری دنیا کی ثقافت مل جائےگی۔آپ ان سے گفتگو کرسکیں گے ۔
    ہم نے بھی اس گلدستے سے آپنے حصے کی خوشبو حاصل کرلی۔ان سب پھولوں کو سونگنے کا موقع ملا اور انکے عطر سے آپنے دماغ کو معطر کر لیا۔ذہن کو جلا ملی،اورخیالات میں وسعت پیدا ہوئی۔وہاں جو کچھ دیکھنے کو ملا اسکا آپنے ملک سے موازنہ کیا۔ انکی خوبیاں اور خامیاں اور آپنےخوبیوں اور خامیوں کا موازنہ کیا۔ آپنے کوتاہیوں  کا احساس ہوا۔    ایک اہم بات جو بہت ضروری ہے وہ یہ ہے کہ میرے        سب سے بہترین دوست جو مجھے ملے وہ معاخاندان کے لوگ اور دوست تھے۔جن پر میں ساری زندگی فخر کروں گا۔یہ خاندان جنکی وجہ سے میں نے چین کی ثقافت کو جانا اور اسےجاننے میں مدد ملی۔آسیہ معا،انکی والدہ فاطمہ،والد محمد،بھائی والدین۔ اور انکے علاوہ موسی جنکے گھر بھی میں گیا تھا انکے والدین سے ملا تھا اور انکا گھر دیکھ کر میں نےچینی مسلمانوں کے بارے میں جانا تھا۔
آسیہ کے بھائی میرے دوست بن گئےتھے لیکن انکے گھرانے میں صرف آسیہ کو انگریزی سمجھ میں آتی تھی اور بول سکتی تھی اسلئے ہمارے تعلقات کا زیادہ ہونا قدرتی تھا۔آسیہ  اور انکا خاندان سنی العقیدہ تھےاور حنفیہ فقہ کے ماننے والے تھے۔چینی مسلمان سارے پکے عقیدے کے مسلمان ہیں۔آسیہ کو عربی سمجھ میں نہیں آتی تھی مگر چینی میں قرآن شریف کا ترجمہ پڑھتی تھی ۔پنجگانہ نماز ادا کیا کرتی تھی۔اور حرام سے بچتی تھی۔انہوں نے میری بڑی مدد کی تھی ۔چینی کھانے بھی میں نے انکی مدد سے جانے تھے۔اور حرام حلال کی پہچان کرائی تھی۔خود بھی اچھا کھانا پکاتی تھی۔وہ کار وبار کرنا چاہتی تھی اور اس کیلئے  بیجنگ میں جگہ کی تلاش میں تھی اسلئے میں بھی  فارغ وقت میں اسکے ساتھ گھوم پھر لیتا تھا اور اسی بہانے میں نے بیجنگ بھی دیکھ لیاتھا۔انکا پہلے تیانجین میں کاروبار تھا لیکن خوب نہیں چل رہا تھا اسلئے وہ ختم کرکے بیجنگ آکر ریسٹورانٹ کھولنا چاہتی تھی۔پھرہوا یوں کہ ایک دن انہوں نے کہا کہ میرے پاس رقم کم ہے ۔مسعود ستار صاحب سے انکی ملاقات میری وساطت سے ہوئی اور انہوں نے دلچسپی لی کہ میں انکی مدد کروں گا۔ مسعود ستار صاحب جو کہ اے پی پی کے بیجنگ میں نمائندہ تھے۔ستار صاحب کے ساتھ چونکہ میرے اچھے تعلقات تھے اسلئے انہوں نے مدد کی ٹھانی اور ایک لاکھ دس ہزار یواں قرض دیدیئے۔لیکن یہ کہا کہ آپ ریسٹورانٹ قریبی جگہ بنائے ۔اور ایسا ہی ہوا انہوں نے مسعود ستار صاحب اور انکی بیگم کی پسند پر ایک ریسٹورانٹ خرید لیا۔آسیہ کا خاندان تیانجن سے شفٹ ہوکر میرے گھر کے قریب رہنے لگا۔اور یوں ہمارے تعلقات مزید بہتر ہوگئے آسیہ کے دو بھائی ایک بہن،دو بھتیجے،اور ایک بھتیجی،اسکی بہن کے دو بچے ہیں ایک بیٹااور ایک بیٹی۔یہ سب میرے گھر بھی آتے رہے اور میں بھی انکے گھر آتا جاتا تھا۔بلکہ آسیہ کی والدہ مجھے تیسرا بیٹا کہتی تھی۔اور انہوں نے واقعی آپنے بیٹوں سے زیادہ میری خدمت کی ہے۔اور مجھ سے زیادہ پیار کیا ہے۔
یہی آسیہ تھی کہ جب  کبھی مسعود ستار صاحب کو ضرورت پڑی تو انہوں نے انکی مدد کی انکی بیگم کو جب بھی مدد کی ضرورت ہوتی تو وہ حاضر ہوجآیا کرتی تھی۔اسی طرح جب بلال بیمار ہو اتو آسیہ اسکی مدد کیلئے ہسپتال میں انکے ساتھ رہی تھی       بھر حال جب آسیہ نے ریسٹورانٹ خریدا تو وہ اچھی طرح نہ چل سکا اور ایک سال بعد آسیہ نے اسے فروخت کرنا چاہا۔اور س وقت میں امریکہ گیاتھا  تو اس دوران آسیہ نے ریسٹورانٹ فروخت کرلیا تھا۔۔اور جب میں سیاٹل سے وآپس بیجنگ آیا تھا تو اسی رات آسیہ مجھے انکے گھر لے گئی تھی تاکہ انکی رقم وآپس کرے۔باقی رقم وہ وقتاً فوقتاً وآپس کرچکی تھی اب تھوڑی سی رقم باقی تھی آسیہ نے ستار صاحب سے کہا کہ میں آپکی بقآیا رقم چند دنوں میں وآپس کروں گی جب مجھے رقم ملےگی۔اور اس دوران پھر میں پاکستان وآپس آگیا تھا۔آسیہ کو رقم ملنی تھی لیکن جن لوگوں نے دینی تھی وہ بینک سے لینا چاہتے تھے اور اسمیں وقت ضرور لگنا تھا۔
       ایک دن میں والد صاحب کے ساتھ ہسپتال میں تھا کہ میڈم مہوش کا فون آیا کہ تم لوگ مسعود کا رقم وآپس کرو۔اس دن مجھے بہت افسوس ہوا کہ اس بندے نے ایک لاکھ  کا اعتماد تو کیا لیکن اب تھوڑی سی رقم کیلئے انتظار نہیں کرسکتا۔اور اسی دن آسیہ سے رابطہ ہوا  اسنے کہا کہ رقم مجھے مل گئی  ہے ایک دو دن میں اسکو مل جائے گی۔اور جب وہ وآپس کرنے کیلئے آئی تو مسعود صاحب کے پاس ملنےکیلئے وقت نہیں تھا ۔ بھر حال انکو آپنی رقم وآپس مل گئی تھی۔اور معاملہ ختم ہوگیا تھا۔
    انکے علاوہ میرا ایک دوست موسٰی تھا  جنکا تعلق برما (میانمر) سے تھا ۔وہ مصری سفیر کے ساتھ باورچی تھا۔بہت ہی اچھا آدمی تھا ۔ انکے دوست بہت کم تھے۔ہماری دوستی کا ایک سبب اسلام بھی تھا۔ہم یاباو کی مسجد میں بھی ملا کرتے تھے۔انکے والد کا تعلق بھارت سے تھا اسلئے اردو روانی کے ساتھ بولتاتھا۔
امریکہ جانے سے قبل میں نے انہیں کہا کہ دو مہینے بعد میں پاکستان وآپس جاؤں گا۔بہت پریشان ہوا کہنے لگا کہ میں اکیلا رہ جاؤں گا۔میں نے کہا کیا پتہ اللہ بہتر جانتا ہے کل کیا ہوتا ہے۔اور پھر تم بھی تو جارہے ہو۔اگلے دن جب میں آیا وہ میرے گھر میں بیٹھا تھا کہنے لگا یار میں برما جارہا ہوں۔ میں نے کہا عجیب آدمی ہو کل مجھ سے شکایت کررہے تھے کہ اکیلا چھوڑ رہے ہو اور اب خود ایسا کررہے ہو۔تو کہنے لگا نوکری ختم ہوگئی ہے۔دوسراسفیر آیا ہے اور انکو میری خد مات کی ضرورت نہیں ہے۔اور دو دن بعد اسے ائر پورٹ چھوڑ آئے۔یہی زندگی ہے۔۔۔۔
         ایک موسیٰ چینگھائی کے بھتیجے۔ جنکے ساتھ بیجنگ میں ملاقات ہوئی تھی ۔وہ ولدینی کے دوست تھے اور شیان سے انہوں نے بھیجا تھا۔موسیٰ ایک دو دن ہمارے ساتھ رہے پھرچلے گئےتھے۔جب میں چینگھائی گیا تھا تو انکے گھر بھی گیا اور انکا گھر دیکھ کر ایسا لگا جیسا کہ پاکستان کے کسی گھر میں ہوں۔بالکل مجھے آپنا گھر محسوس ہوا۔انکے گھر میں گائے بھی تھی اور بکری بھی ۔ایک بڑا صحن تھا کمرے اور برآمدہ پاکستانی گھروں جیسا تھا۔انکے گھر پر ہم نے کھانا کھآیا تھا انکی والدہ اور والد کے ساتھ کافی دیر تک ہم نے باتیں کیں تھیں۔انکے ساتھ اب بھی sms کےذریعے رابطہ ہوتا ہے۔  اللہ انہیں خوش رکھے۔امین


بیجنگ میں  پاکستان کا سفارت خانہ
     سفارت خانہ آپنے ملک کے لوگوں کیلئے دیار غیر میں کسی بھی حلت میں  اُمید کی کرن ہوتی  ہے۔یہ ایک ایسی جگہ ہے جہاں آپ آپنے ہم وطنوں سے مل سکتے ہیں۔یہی حال ہمارے لئے آپنےسفارت خانہ کی  تھی۔ سفارت خانہ نہ صرف کسی ملک کے ساتھ تعلقات کو فروغ دینے کیلئے بنآیا جاتا ہے بلکہ آپنے ملک کے باشندوں کی خدمت اور انکے حقوق کی  حفاظت کیلئے بھی ہوتا ہے۔
بیجنگ میں پاکستان کا سفارت خانہ   چاو یانگ ضلع میں واقع ہے۔اسمیں ایک خوبی یہ ہے کہ یہاں پر ایک سکول بھی ہے۔ جو جدید تعلیم کے ساتھ ساتھ مذہبی تعلیم بھی دیتا ہے ۔یہ سکول جن لوگوں نے بنآیا ہے وہ بہت دور اندیش تھے۔لیکن بعد والوں نے شاید اسکی ترقی کیلئے کوئی خاص کارنامہ سر انجام نہیں دیا۔حال ہی میں مسعودخان صاحب اسمیں دلچسپی لینے لگے تھے۔اسکے علاوہ ایک مسجد بھی ہے۔
    سنا ہے کہ چین نے دوستی کی خاطر پاکستان کو سفارت خانہ بنانے کیلئےبڑی زمین دی ہے جو کئی عشروں سے بیکار پڑی ہے۔اس زمین سے بہت زیادہ فائدہ اٹھآیا جاسکتا ہے۔مجھے بتایا گیا تھا کہ یہ زمین بہت قیمتی ہے اور بہت زیادہ ہے اسکی تجارتی اہمیت بہت زیادہ ہے ۔لیکن یہ زمین بے توجہی کا شکار ہے ۔کسی نے بھی اسکو کوئی اہمیت نہیں دی ہے۔ورنہ کچھ بھی نہ ہو اسمیں عملے کیلئے رہائشی مکانات بنا کر  بہت سے رقم کو بچآیا جاسکتا ہے۔کیونکہ سفارت خانہ میں متعین بعض عملہ مہنگے مہنگے گھر کرا یہ پر لیکر قومی دولت کو ضائع کرتے ہیں۔ہم نے سنا ہے کہ پاک چین دوستی کی خاطر  چین نے یہ زمین پاکستان کو دی تھی۔یہ زمیں میں نے خود نہ دیکھی ہے مگر ایک ذمہ دار افسر نے اسکے بارے میں بتایا تھا۔
میرا تعلق چونکہ ریڈیو سے ہے اور پھر چین میں بھی میں سی آرآئی سے وابسطہ تھا اسلئے پاکستان کے سفارتخانے آنا جانا لازمی تھا۔اور وہاں لوگوں سے ملنا بھی ضروری ہوتا تھا۔اسی طرح ایک طرف اگر ادارے کی نمائندگی ہوتی تھی تو دوسری طرف آپنے ملک کے حالات سے آگاہی بھی حاصل ہوتی تھی اور پھر آپنے وطن سے دور یہی ایک ایسی جگہ تھی جہاں آپنے ہم وطنوں سے ملکر دل کو تسکین حاصل ہوتی تھی۔اسلئے یہاں پر دوست بھی مل جاتے تھے ۔اور اگر پاکستان سے کوئی وفد  یا کوئی اہم شخصیت آتی  تو ان سے آگاہی کے ساتھ ساتھ ان سے ملاقات بھی ہوجاتی اور انکا انٹر ویو بھی ہوجاتاتھا۔
کبھی کبھی بیجنگ میں پاکستان کے سفیر جناب مسعودخان بھی پاکستانی برادری کے لوگوں کو بلاتے تھے انکے خیالات جاننا چاہتےتھے انکے مسائل سے آگاہی حاصل کرتے تھے اور حل میں مدد کیلئے بھی کوششیں کرتے تھے۔جناب مسعود خان صاحب کا تعلق چونکہ ریڈیو پاکستان سے رہا تھا اسلئے ذرائع ابلاغ کے ساتھ انکا ایک تعلق بھی تھا اور وہ میڈیا کی اہمیت سے خوب آگاہ تھے۔اسلئے وہ میڈیا کو خوب اہمیت دیتے تھے اور صحافیوں سے ملاقاتیں کرتے رہتے تھے اور ہمیں بھی بلآیا کرتے تھے۔اسی طر ح آپنے وطن کی خدمت کا موقع بھی ملتا رہتا تھا۔
چین میں پاکستانی سفارت خانے میں ایک خوبصورت مسجد بھی ہےجس میں باقاعدگی کے ساتھ نماز جمعہ اداکی جاتی ہے۔اکیلئے امام کی خدمات بھی حاصل کیں گئیں ہیں۔نماز عیدین بھی بڑی باقاعدگی کے ساتھ ادکی جاتی ہیں۔چونکہ چاویانگ میں اور خصوصی طور پر جہاں یہ سفارت خانہ واقع ہے کوئی مسجد نہیں ہے اسلئے دوسرے سفارتخانوں سے بھی لوگ یہاں نماز اداکرنے کیلئے آتے ہیں اسکے علاوہ جتنے بھی پاکستانی  بیجنگ میں موجود ہوتے ہیں وہ بھی نماز جمعہ کیلئے آتےتھے اسلئے ان سب سے ملاقات بھی ہوتی تھی یعنی کہ خورمہ بھی کھاؤ اور ثواب بھی حاصل ہو۔
   اسکےعلاوہ اے پی پی کے نمائندے ستار صاحب کے ساتھ اکثر ملاقات بھی یہاں پر ہوجآیا کرتی تھی۔
          سفارتخانے میں ہم زیادہ ترپریس کونسلر جناب افتخار راجہ سے ملاقات  کرتے تھے اور ان سے ملتے تھے۔راجہ صاحب بھی کھلے طبیعت کے مالک تھے اور آپناکام کرنا خوب جانتے تھے جو پاکستانی افسران بیجنگ آتے تھے انکی خدمت  خوب کرتے تھے۔ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے بھی انکے اچھے روابط تھے۔انکی دعوتیں بھی خوب کیاکرتے تھے ہمیں انکے پارٹیوں کے اطلاعات ان صحافیوں سے مل جاتے تھے جنکی وہ دعوت کرتے تھے۔مجھے تو سی آر آئی کے نمائندے سے بھی کبھی معلوم ہوجاتا تھا اور ستار صاحب کو اخبار کے نمائندوں سے خبر مل جاتی تھی۔راجہ صاحب نے ملک کی خدمت خوب کی ہے اور شاید انکی خدمات کی وجہ ہے کہ آپنا عرصہ مکمل کرنے کے بعد بھی انکو وہاں خدمات سرانجام دینے کی اجازت دی گئی ہے۔
ایک دفعہ مجھ سے چینی دوستوں نے پاکستان سے متعلق کچھ تحریری مواد مانگا۔اسکے لئے ہم بیجنگ کے کتب فروشوں کے دوکانوں میں گئے تھے مگر کہیں سے بھی دستیاب نہ ہوسکا۔یہاں تک کہ بیجنگ کے شنیخواہ بک سٹور اور فرینڈشف بک سٹور سے بھی کچھ نہ مل سکا۔۔آخر پھر وہ ایک دن جمعہ پڑھنے کیلئے میرے ساتھ سفارت خانہ گئے۔میں نے وہاں پر عملے کے ایک آدمی سے درخواست کی کہ اگر کہیں سے سیاحت یا دوسرے تشہیری مقاصد کیلئے  تیارکے گئے بروشر یا کچھتحریر مواد ہو تو عنایت کریں انہوں نے میری عرضداشت سن کر کچھ ایسے پرانے بروشر دیئے جو استعمال سے  رہ گئے تھے اور اچھے تھے دیئے ۔ہم نے انکا شکریہ اداکیا اور وہ بہت خوش ہوئے کیونکہ وہ سیاحت کیلئے پاکستان آنا چاہتے تھے۔لیکن اسی وقت افتخار راجہ صاحب نے یہ چیزیں دیکھ لی تو بہت برانگیختہ ہوگئے۔کہ میری اجازت کے بغیر یہ کیوں دئیے گئے۔مجھے اس اہلکار پر بہت ترس آیا اور میں نے راجہ صاحب سے کہا کہ اس بیچارے کا قصور نہیں ہےبلکہ میرا ہے کہ میں نے ان سے مانگ لیا۔ مجھے تو انہوں نے معذرت کرلی ۔مگر مجھے یہ اچھا نہ لگا۔
                    ایک دن پاکستانی کمیونٹی کے ساتھ میٹنگ کے دوران جناب مسعود خان صاحب نے پوچھا کہ پاکستان کے ساکھ کو بحال کرنے کیلئے اور سیروسیاحت کے فروغ کیلئے کیا اقدامات اختیار کرنے چاہیے۔میں نے عرض کیا کہ جناب یہاں کے بک سٹوروں میں پاکستان سے متعلق کچھ بھی نہیں ہے جبکہ نیپال اور افغانستان کے بارے میں کتابوں کے علاوہ نقشے تاریخ اور بہت سارے بروشر موجود ہیں۔میں نے ان دو ممالک کا ذکراسلئے کیا تھا  کہ یہ چھوٹے ممالک ہیں اور پاکستان کے پڑوسی ہیں اور ترقی کے لحاظ سے بھی آگے نہیں ہیں۔ویسے یہاں پر ہر ملک کے بارے میں معلومات تھیں اگر ہمیں نہ مل سکی تو وہ صرف پاکستان سے متعلق مواد تھا۔انہوں نے کہاتھا کہ ہم اسکو توجہ دیں گے۔مگر مجھے نہیں معلوم کہ اس طرف سفارتخانے یا اسکے متعلقہ شعبے یامتعلقہ محکموں یا سیاحت سے متعلقہ کسی نے اسطرف  توجہ دی ہے یا نہیں۔
             اسکے علاوہ سفارت خانے میں خاص مواقع جیسے یوم پاکستان،جشن آزادی اور دیگر خاص مواقع پر خصوصی تقاریب  کا اہتمام کیا جاتا ہے جسمیں پاکستانی کمیونٹی کو شرکت کی دعوت بھی دی جاتی ہے۔بیجنگ میں کل پاکستانیوں کی تعداد بھی کم ہے۔مگر ان تقاریب میں ایک دوسرے کے ساتھ ملاقاتیں ہواکرتی تھیں۔جب معاشی معاملات کے منسٹر جناب سردار امین کی تعیناتی ہوئی اور وہ تشریف لائے تو پھر انکے ساتھ بھی ملاقاتیں ہوا کرتی تھی سردار امین صاحب بھی بہت اچھے کارکن تھے اور آپنے کام پر توجہ دیا کرتے تھے۔انکےعلاوہ طارق اور الطاف کے  ساتھ جو کہ افتخار راجہ کے ساتھ کام کرتے تھے اور انکے ماتحت تھے بھی ملاقاتیں ہوتی تھیں۔
                جب جناب مسعود خان صاحب بیجنگ تشریف لائے تو انہوں نے ثقافتی سرگرمیوں کو فروغ دیا تھا اسی طرح ایک مرتبہ پاکستانی کھانوں کا میلہ لگوآیاتھا۔اسکے علاوہ خصوصی واقعات کے حوالے سے بھی تقاریب منعقد ہوجآیا کرتی تھیں۔اسطرح ایک تقریب سوات کے واقعات اور طالبان کے خلاف آپریشن کی وجہ سے بے گھر ہونیوالے افراد کی مدد کیلئے ایک میلہ منعقد کیا گیا تھا جسکی ساری آمدنی سوات کے  اے ڈی پیز کو دی گئی تھی۔اس میلے میں میرے چینی دوست بھی شریک ہوگئے تھے اور انہوں نے بھی کافی رقم چندے میں دی تھی۔
    جناب مسعود خان صاحب کے آنے سے سفارتخانے میں چہل پہل شروع ہوگئی تھی اور سرگرمیوں میں اضافہ ہوا تھا۔چونکہ وہ میڈیا کے ساتھ تعلق کی بناء پر اسکو اہمیت دیتے ہیں۔اسلئے انہوں نے کوشش کی ہے کہ ملکی کی خدمت کی جائے۔مسعود خان صاحب مردم شناس بھی ہیں اور کامے آدمیوں کو پہچانتے تھے۔انکی اکثر خبریں مسعود ستار اخبارا مین پہنچاتے تھے اور وقتاً فوقتاً انکو گھر بلا کر ہدآیات دیا کرتے تھے اور میڈیا سے آگاہی حاصل کرتے تھے۔
   پاکستان سے کبھی کبھی جو وفودآتے تھے انکے انٹرویوز بھی ہم ریکارڈ کرکے نشر کرتے تھے۔ ایک دن مجھے پریس کونسلر افتخار راجہ کا فون آیا کہ ریڈیوپاکستان کے نئے ڈائریکٹر جنرل آئے ہیں ۔
پھر سی آرآئی  ککے سربراہ نے ریڈیوپاکستان کے ڈائریکٹر جنرل مرتضی سولنگی کو سی آر آئی آنے کی دعوت دی۔انکے میٹنگ میں ہمیں بھی شرکت کی دعوت دی گئی۔بہت اچھے ماحول میں بات چیت ہوئی ۔اسکے بعد جناب  مرتضی سولنگی کو شعبہ اردو کے سٹوڈیوز میں آنے کی دعوت دی گئی اور انکا ایک انٹرویو بھی ہم نے ریکارڈ کرلیا۔اسکے بعد جناب مرتضی سولنگی صاحب دوبارہ بھی تشریف لائےتھے ۔ 
                     
                                                         

چین میں مساجد
کوئی بھی مسلمان جب کہیں جاتا ہے اور خصوصا ًدوسرے ملک تو اسکو پہلا مسئلہ یہ پیش آتا ہے کہ قبلہ کی صحیح سمت کا تعین کرےاور ساتھ ساتھ مسجد معلوم ہو تاکہ وہاں پر نماز باجماعت ادا کرنے کا اہتمام کیا جاسکے۔جب میں بیجنگ پہنچا تو یہ مسئلہ میرے ساتھ بھی تھا۔میں نے آپنے گائیڈ جن کاذکر میں کرچکا ہوں جو بعد میں میرا ساتھی بھی تھا اور  ہم اکھٹے کام بھی کرتے رہے  اور وہ میرا شاگرد بھی رہا۔لیکن اسوقت وہ میرا گائیڈ بھی  تھا اور ساتھی بھی تھایعنی سرفراز (وو)سے پوچھا کہ جناب مغرب کا صحیح سمت بتاؤ یعنی جس طرف سورج غروب ہوتا ہو۔تاکہ قبلہ رو ہو سکے اور اللہ کا شکر ادا کر سکوں جس نے ہم پر اتنی ساری مہربانیاں کیں ہیں۔انہوں نے میری کافی رہنمائی فرمائی۔بہر حال اگلے دن پشتو سروس کے ماہر خوشحال تایب سے مسجد کے بارے میں معلومات حاصل کیں اور نماز جمعہ اداکرنے کے لئے شہ جینگشان کی مسجد چلے گئے۔اور معلوم ہوا کہ بیجنگ میں بہت پرانے اور خوبصورت مساجد موجود ہیں۔
  چین میں اسلام عرب مبلغوں اور تاجروں کے توسط سے پہنچا ۔انہوں نے یہاں کے بادشاہوں سے اجازت لیکر مساجد اور مدرسے تعمیر کیں ۔کہتے ہیں ایک مرتبہ بادشاہ کو ایک مہم کیلئے مترجم کی ضرورت پیش آئی ۔شیان شہر میں ایک مسجد کے امام نے آپنی خدمات پیش کیں۔وہ مہم کامیاب ہوا اور بادشاہ انکی خدمات سے خوش ہوا اور انکی خدمات کی اعتراف میں شیان میں اس مسجد کو دوبارہ تعمیر  کیا اسکی تزئین و ارائش کی تاکہ اس امام  کی جن کا نام حسن تھا کی خدمات کو سراہا جاسکے اور اسکا اعتراف کیا جاسکے ۔ یہ ژونگخہ مہم جو کامہم مغربی سمندروں کی طرف تھا جو کامیاب ہوئی تھی  اور وہ اس کامیابی پر بہت خوش تھے۔
بہر حال بات چین میں مساجد کی ہورہی تھی ۔مجھے ایک دوست آسیہ نے  بروشر دیاتھا جس میں گوانجو  میں ایک مسجد کا ذکر تھا۔کہ یہاں پر ایک صحابی حضرت ابوالعاص(ر ض) تشریف لائے تھے اور تبلیغ اسلام میں مصروف رہے ۔یہاں پر انکا روضہ مبارک بھی ہے اور ایک خوبصورت مسجد بھی انکے نام سے منسوب ہے جسکے زیارت کیلئے لوگ آتے ہیں ۔میرا اردہ تھا کہ یہاں جاؤں گا مگر وقت نہ ملا اگر زندگی نے وفا کی تو ضرور اسکی زیارت کا شرف حاصل کروں گا۔
بیجنگ میں آپنے قیام کے دوران معلوم ہوا کہ یہاں پر بہت سی مساجد ہیں۔چین میں مسلمانوں کی تعداد بھی کافی ہے اور کچھ صوبوں کی اکثریتی آبادی مسلمانوں کی ہے۔ویغور قومیت سارے مسلمان ہیں انکے علاوہ معا قومیت ساری مسلمان ہے ۔کہتے ہیں کہ جب عرب مسلمان یہاں آئے اور انہوں نے یہاں شادیاں کیں تو معا قومیت انکی اولاد ہیں ۔بہر حال وجہ کچھ بھی ہو میرے خیال میں معا قومیت چینی ہے اور چینی لاصل ہے۔اسکے علاوہ چین کے بہت سار ے صوبوں میں مسلمان اگر پہلی نہیں تو دوسری بڑی قومیت ہے۔اور یوں جہاں جہاں مسلمان آباد ہیں وہاں پر مساجد بھی  ہیں۔بیجنگ کی نیوجیہ مسجد تاریخی اہمیت کی حامل مسجد ہے کافی وسیع اور خوبصورت ہے۔  یہ مساجد چینی اور اسلامی فن تعمیر کے شاہکار ہیں۔چین کے مساجد کی دوسری خوبی جو میں نے دیکھی وہ یہ ہے کہ یہ مساجد صرف مساجد نہیں بلکہ عمارات کی کمپلیکس ہیں۔جہان پر مدرسے، امام کےلئے دفاتر،لوگوں کے آپس میں مشوروں کیلئے الگ کمرے،کتب خانے،وضو اور غسل کیلئے الگ انتظام بھی کیاجاتا ہے۔چین کے مساجد  بہت عمدہ اورنفیس بنائے جاتے ہیں۔یہاں پر مسجد کے آدا ب کا بہت خیال رکھا جاتا ہےاور  سب سے بڑی بات یہ کہ حکومت ان سب کی سر پرستی کرتی ہے۔ یہی حال تقریبا  ً تمام مساجد کی ہے۔
                 نیوجیہ کی مسجد بہت خوبصورت ہے اسمیں خواتین نمازیوں کیلئے الگ جگہ بنائے گئے  ہیں جنکے پردے کیلئے باقاعدہ انتظام کیا جاتا ہے اور میں نے دیکھا ہے کہ خواتین باقاعدگی سے  ان مساجد میں نماز پڑھنے کیلئے آتی ہیں۔
   جیسا کہ میں نے شروع میں ذکر کیا کہ پہلی دفع میں شہ جینگشان کی مسجد میں نماز پڑھنے کیلئے گیا تھا ۔تو وہاں پر بھی خواتین کیلئے الگ انتظام تھا۔یہ مسجد سی آر آئی سے کافی فاصلے پر واقع تھی بس میں کم از کم تیس یا چالیس منٹ لگتے تھے۔اسکے علاوہ بھی بیجنگ میں بہت ساری مساجد تھیں جن میں ایک خایدیاں اور ایک یاباو کی مساجد تھیں۔ اسکے علاوہ پاکستان کے سفارتخانے میں بھی ایک مسجد بنائی گئی ہے جہاں پر قرب  وجوار کے لوگ نماز جمعہ اداکرنے کیلئے آتے ہیں۔اور خصوصا ًپاکستانی جمعہ کے دن نماز پڑھنے کیلئے یہاں آتےہیں تا کہ سب دوستوں سے ملاقات ہو سکے۔
پاکستان کا سفارتخانہ باباو شان سے بہت دور ہےاور یہاں تک پہنچنے میں ڈیڑھ دو گھنٹے لگ جآیا کرتے تھے۔اسلئے میں یہاں بہت کم جآیا کرتا تھا کیونکہ وآپس آپنے فرائض منصبی کی انجام دہی  کیلئے بھی جانا ہوتا تھا۔ بیجنگ کے علاوہ  جب میں چینگھائی کے سیر کیلئےچلاگیا تھاتو وہاں پر بھی بہت سارے مساجد دیکھے۔ان مساجد کی تعمیر میں چینی فن تعمیرات اور اسلامی فن کا حسین امتزاج پآیا جاتا ہے۔ میں نے مینخہ کی مساجد دیکھ لئے اور یہاں سے جب شینینگ گیا تو وہاں کے ماحول نے تو مجھے بہت متأثر کیا۔جب ہم شینینگ کی مسجد کے قریب پہنچے تو دوپہر کی نمازکا وقت تھا۔میں نے دیکھا کہ شہر کے مختلف حصوں سے لوگ ٹولیوں کی شکل میں آرہے ہیں ۔کالی شیروانی اور سفید ٹوپی پہنے ہوئے بہت اچھے لگے۔چین میں میں نے دیکھا کہ مساجد آباد ہیں اور بہت زیادہ لوگ نماز پڑھنے کیلئے مسجد کا رخ کرتے ہیں۔میرے بہت سے دوست بن گئے تھے جو مسلمان تھے اور زیادہ تر گانسو ،مینخہ ،لنجو،شینینگ،شینجیانگ سے تعلق رکھتے تھے۔
 ایک بات جو قابل غور ہے وہ یہ ہےکہ چین کے لوگ بہت ہی پر خلوص اور سادہ ہیں وہ ہر کسی پر اعتماد کرتے ہیں ان میں دوغلا پن نہیں ہے،چین کے لوگ محبت کرنے والے لوگ ہیں۔سب کو مذہبی آزادی حاصل ہے وہ کہیں بھی عبادت کرسکتے ہیں ان پر کوئی پابندی نہیں ہے۔ایک بہت بڑا چیلنج جو چینی مسلمانوں کو درپیش ہے وہ ہے انکی آئندہ نسل اور انکا مستقبل۔چین کے مسلمانوں کیلئے معاشی مسئلہ اتنا نہیں ہے۔ہاں یہ ہے کہ چین کی آبادی زیادہ ہے اور انکے معاشی وسائل محدود ہیں لیکن پھر بھی مذہب سے محبت کیوجہ سے انکے مساجد خوبصورت ہیں لیکن نوجوان نسل تعلیم اور معاشی مسائل میں ایسے الجھےہوئے ہیں کہ مذہب سے دور ہوتے جارہے ہیں۔
    چین میں مساجد بہت ہیں اور ہر اس علاقے میں جہاں مسلمان تعداد  میں کافی ہیں مساجد بنائے گئے ہیں۔
بیجنگ میں بھی مسلمانوں کے آپنے محلے ہیں جہاں پر وہ ایک برادری کی شکل میں رہتے ہیں۔ مثلاً نیوجیہ کے مسجد کے  ارد گرد جتنا بھی علاقہ ہے وہ خوئی مسلمانوں کا ہے۔وہاں پر ایک سڑک بھی انکے نام سے منسوب ہے،خوی قومیت بھی مسلم قومیت ہے ۔یہاں پر ایک بڑی مارکیٹ ہے جسمیں تمام ضروریات زندگی دستیاب ہے۔اس علاقے کے سارے ریسٹو رانٹ مسلمانوں کے ہیں۔اسلئے یہاں پر حلال خوراک کی فراوانی ہے اور آپ آنکھیں بند کرکے انکے کھانے کھا سکتے ہیں۔اسی طرح شہجنگ شان کی مسجد ہے۔یہاں بھی مسلمانوں کا محلہ ہے اور اکثریت مسلمانوں کی ہے ۔جو بہت ہی ملنسار اور پیارے لوگ ہیں۔انکے ساتھ ملکر مزہ آتاتھا۔
   یاباو بھی ایسا ہے کہ اردگرد مسلم آبادی والا علاقہ ہے یہاں پر بھی حلال کھانے دستیاب ہیں اور حلال ریسٹورانٹ موجود ہیں۔
  اسی طرح شینینگ ،مینخہ ،شی ان جہاں بھی میں گیا میں نے یہی دیکھا۔ہر جگہ مسلم کمیونٹی ہے اور انکے لئے حلال کھانے دستیاب ہیں۔یہاں لوگ قربانیاں بھی دیتے ہیں۔اور حج کیلئے بھی جاتے ہیں  ۔ان مساجد میں نماز کےوقت کافی لوگ جمع ہوتے ہیں۔



چینی نوجوان
  نوجوان کسی بھی قوم کا قیمتی سرمایہ ہوتے ہیں۔یعنی آج کا اثاثہ اور کل کے حکمران۔اسلئے نوجوانوں کو  خصوصی توجہ دی جاتی ہے۔کھیلوں کے میدان میں بھی نوجوان جاتے ہیں،فوج میں نوجوان جاتے ہیں اور محاذ پر بھی جوان ہی لڑتے ہیں۔کسی ملک کے نوجوانوں کی سوچ اسی ملک کی ترقی کی ضامن ہوتی ہیں ۔
اسلئےنوجوانوں کو تیار کرنا پڑتا ہے۔ان نوجوانوں میں جذبہ حب الوطنی کو اُجاگر کرنا پڑتا ہے انکی ایسی تربیت کی جاتی ہے کہ مستقبل میں یہی نوجوان ملک کو سنبھال دیں گے۔
چین ایک جدید اور زیادہ آبادی والااور کثیرالقومیتی ملک ہےجہاں پر  ایک سے زیادہ بچوں پر پابندی ہے۔ چین کی آبادی زیادہ تو ہے مگر یہ سارے نوجوان نہیں ہےان میں بچے اور بوڑھے بھی شامل ہیں۔
اب جبکہ کسی خاندان میں ایک بچہ یا بچی ہو تو اسکی اہمیت اور بھی بڑھ جاتی ہے اور ان پر ذمہ داریوں کا بوجھ مزید بھاری ہو جاتا ہے۔ چینی نوجوانوں کو بھی یہ بات خوب معلوم ہے ۔انکو آپنے ملک کے حالات کا بھی صحیح ادراک ہے اور انکو یہ بھی معلوم ہے کہ کیا کرنا ہے اور کیسے کرنا ہے۔چین کی آبادی  میں اسوقت جو لوگ موجود ہیں ان میں بچے، جواں سال ،نوجوان،پکے عمر کے لوگ اور عمر رسیدہ یعنی وہ جو ۶۰ سے اوپر کے افراد شامل ہیں۔نوجوانوں میں بھی ایک نسل تو یہ کہہ سکتے ہیں کہ ابھی جوانی سے گزر رہی ہے اور  ایک وہ جو ابھی جوانی میں قدم رکھ رہے ہیں۔
           ہر ملک کی الگ تاریک ہوتی ہے اور اسکے باسی اس تاریخ کی روشنی میں آپنا راستہ متعین کرتے ہیں اور آپنے اہداف مقرر کرتے ہیں۔چین کی تاریخ بھی ایسی ہی ہے جو راستہ چینی رہنماؤں نے متعین کیا اور جو اہداف انہوں نے مقرر کئے ہیں چینی قوم اسی راستے پر گامزن  ہے اور ان اہداف کو حاصل کرنے کیلئے کوشاں ہے۔
چین کی وہ نسل جس نے آزادی حاصل کرنے کی تکالیف سہی ہیں اور انکے بعد کی نسل  جنہوں نے آپنے ان رہنماؤں کو دیکھا اور سنا انکی سوچ اور فکر اور آج کی نسل کے سوچ میں واضح فرق نظر آتا ہے۔اگرآپ ان لوگوں سے ملیں گے جو آج پچاس سے اوپر ہیں  ۔۔ ان میں رکھ رکھاو اور آداب ،لوگو ں سے مل ملآپ اور اٹھنے بیٹھنے کے  آداب کا لحاظ صاف نظر آئےگا۔اسکے بعد وہ نسل جو انکے ساتھ قریب رہاان میں بھی  یہ صفات عیاں ہیں۔کیونکہ انہوں نےبھی وہ سب کچھ دیکھا ہے۔لیکن جو نسل اب نوجوان ہورہی ہے یا ابھی نوجوان ہے ان میں ایسی صفات کا فقدان ہے ۔ میں یہ نہیں کہتا کہ ان میں کمی ہے یہ سب کچھ ایک ارتقائی عمل ہے اور وقت کے ساتھ ،خوشحالی کے ساتھ،دولت،سہولیات کے ساتھ بھی یہ بدلو اتا ہے۔
         اگر یہ تبدیلی اچھی  ہو تو مستقبل مزید بہتر سے بہترین کی طرف جاتا ہے اور اگر بدلاوا صرف نقل ہو تو اصل کی کآپی ضرور ہوتی ہے مگر اصل نہیں ہوتا۔
                                                      چین کے نوجوان بہت خوش قسمت ہیں انکو  بزرگوں نے بہت اچھا ملک بناکے دیا ہے۔انہوں نے جو تکالیف اٹھا ئیں اور جو بُرے دن دیکھے ان سب سے آپنے ملک کو نکالا اور انکو ایک ترقی یافتہ اورخوشحال ملک بنا  دیا ہے۔
         ضآج کے چینی نوجوان  کے کندھوں کو اس بوجھ نے کافی دبآیا ہے۔اگرآپ بس میں بیٹھیں گے تو آپکو بہت سارے لڑکے اورلڑکیاں بیٹھے اور کھڑے اونگتے نظر آئیں گے۔یہ اسلئے کہ رات دیر تک کام کرتے ہیں اور پڑھتے ہیں۔صبح آپنے سکول کالج یا یونیورسٹی جاتے ہوئے بس یا سبوے میں نیند پوری کرتے ہیں۔اسکے علاوہ انکو یہ بھی احساس ہوتا ہے کہ انکے ملک  کی آبادی زیادہ ہے اسلئے جو بھی ملے غنیمت سمجھو اور کفران نعمت مت کرو۔حکومت انکو جو کچھ بھی دیتی ہے وہ اس پر شاکر نظرآتے ہیں۔
  چینی نئی نسل بہت خوشحال ہے ۔لیکن انکے کندھوں پر بوجھ بھی محسوس  ہوتا ہے۔ کیونکہ میں نے بہت سے نوجوانوں سے جب شادی کے بارے میں دریافت کیا سب سے ایک ہی جواب پآیا کہ جب گھر خریدیں گے تب شادی کریں گے۔اسی طرح ایک شادی شدہ جوڑے سے باتوں میں جب بچوں کے بارے میں دریافت کیا تو جواب یہی تھا کہ جب رقم جمع کرکے گھر خریدیں گے اور پھر گاڑی تب شادی کریں گے ورنہ نہیں۔ یہ دیکھ کر میرے دوست نویدچوہان نے ایک دن کہا کہ مجھے ان نوجون لڑکوں اور لڑکیوں پر ترس آتا ہے کہ یہ تب تک شادی نہیں کرتے جب تک گھر کا انتظام  نہ ہوجائے ۔
ایک دن  تیاانمن سکوائر میں ایک نوجوان مجھ سے ملا  ہم اکھٹے بیٹھے تھے بہت ہی ٹوٹی پوٹی چینی میں میں اس کے ساتھ بات کررہا تھا اللہ جانے وہ سمجھا کہ نہیں کیونکہ مجھے چینی تو آتی نہیں تھی خیر وہ بھی میری طرح کی انگریزی بولنے لگا۔اسے بھی انگریزی بولنے کا شوق تھا اور مجھے چینی بولنے کا شوق تھا۔میں نے اسے کہا کہ انگریزی تھوڑی سی اور سیکھو ۔۔تو وہ کہنے لگا کیو ں۔مجھے انگریزی سیکھنے کا کوئی شوق نہیں ہے اگر آپکو ہم سے باتیں کرنے کا شوق ہے تو چینی سیکھو  ہمارا کام خوب چل رہا ہے۔بات تو اس نوجوان نے ٹھیک کی تھی میں بھی خاموشی سے اٹھا اور بےھائی پارک کی طرف چل نکلا۔
اسی طرح بہت سارے واقعات ہیں جب میں چین گیا تھا تو بہت سارے نوجوان انگریزی سیکھنے کے خواہشمند تھے۔کیونکہ ان دنوں بیجنگ اولمپیک گیمز شروع ہونے والے تھےاور انکو معلوم تھا کہ بہت سے غیرملکی آیئنگے اور انکو مدد کی ضرورت ہوگی۔اسلئے نوجوان بڑے جوش و خروش کے ساتھ مختلف زبانیں سیکھ رہے تھے۔اور بہت سے نوجوانوں نےبیجنگ اولمپیک کھیلوں کیلئے رضا کار کےطور پر بھرتی ہونےکیلئے درخواستیں دیں تھیں۔
بیجنگ اولمپیک کھیلوں میں رضاکار بننا چینی نوجوانوں کیلئے ایک خواب تھا کیونکہ وہ کسی نہ کسی صورت میں بیجنگ اولمپیکس میں شامل ہوکر آپنے وطن کے ساتھ وفاداری کا اظہار کرنا چاہتے تھے۔کھیلوں کے ساتھ دلچسپی تھی یا  نہ تھی کیونکہ ہرکوئی کھیلوں کا شوقین نہیں ہوتا۔یہ سب لوگ دنیا کو دکھا نا چاہتے تھے کہ چینی قوم کو آپنے ملک کی وقار کتنی عزیز ہے اور یہ دنیا میں ایک ریکارڈ ہے۔اور جتنے چینی نوجوانوں سے ہم ملے جو رضاکار بنے تھے وہ بہت خوش نظرآتے تھے۔
چینی نوجوانوں میں بیجنگ اولمپیک کھیلوں کے بعد کافی اثر پڑا۔جذبہ حب الوطنی کے ساتھ ساتھ انکو دیگر دنیا سے دلچسپی ہونے لگی ہے۔اور اب بہت سے بیرون ملک جاکر خصوصی طور پر مغربی مما لک میں جاکر تعلیم حاصل کرنا چاہتے ہیں۔اور اب جبکہ تعلیم پوری دنیا میں علم کے پھیلانے کا ساتھ ساتھ ایک صنعت کی شکل اختیار کرچکی ہے۔اور تعلیم سے دولت کمآیا جاسکتا ہے۔یہی صنعت چین میں بھی کافی عروج پر ہے یعنی بیرون ممالک سے طالب علم چین آکر تعلیم حاصل کرسکتے ہیں جن میں اکثریت ترقی پذیر اور ایشیائی ممالک کی ہوتی ہے۔یورپ اور امریکہ سے چین میں تعلیم حاصل کرنےکیلئے طالب علم آتے ہیں۔اسی طرح چین سے بیرون ملک جانے والے نوجوانوں کی بھی کمی نہیں ہے۔اور بہت سے ایسے ہیں جو بیرون ممالک جاکر آباد ہوتے ہیں اسی طرح پوری دنیا میں چینی آباد ہیں۔یہ سب بہت محب وطن ہیں۔
 بیرون ممالک کے یونیورسٹیوں سے نمائندوں کو بلاکر انکو آپنی آپنی یونیورسٹی سے متعلق معلومات فراہم کرنے کا موقع فراہم کیا جاتا ہے۔اسی طرح کے ایک دو میلے بیجنگ میں منعقد ہوئے جو میں نے دیکھ لئے۔مجھے یہ بھی بہت اچھا لگا۔
   چینی نوجوان بیرون ممالک خصوصی طور پر امریکہ سے بھی متأثر نظر آتے ہیں اور وہ امریکہ جانا پسند کرتے ہیں۔آپکو امریکی سفارت خانہ کے باہر لمبی قطار نظر آئے گی  جو ویزے کے حصول کیلئے بنائی جاتی ہے۔اسمیں اکثریت نوجوانوں کی ہوتی ہے۔               دنیا جب سے ایک گلوبل گاؤں کی شکل اختیار کرچکی ہے تب سے مغربی تہذیب کے اثرات ہر جگہ پھیلنے لگے ہیں ۔چین بھی اس سے مبرا نہیں ہے۔بلکہ میں تو یہی کہوں گا۔کہ چین نے عموماً مغربی طرز زندگی آپنائی ہے۔تقریباً چینی طرز زندگی اور مغربی طرز زندگی میں کوئی خاص فرق آپکو نظر نہیں آئےگا۔سوائے رسم رواج کے اسمیں بھی مغربیت سرائیت کر چکی ہے۔انکے گھر ،طرز رہائش وغیرہ سبھی میں مغربی عناصر نظر آتے ہیں۔اور چینی نوجوان تو تقریباً مکمل اس کی لپیٹ میں ہیں۔ اور اسے آپنانے میں کوتاہی نہیں کرتے۔
    اسکے علاوہ اگر آپ سبوے میں جائیں گے یا بس میں سفر کریں گے توآپکو ایسے نوجوان بہت کم ملیں گے کہ آپنے سے بڑوں یا بزرگوں کیلئے جگہ چھوڑیں گے یا نشست انکےلئے خالی کریں گے ۔جب تک بس کی کنڈیکٹر یا کوئی اور انہیں نہیں کہے گا ۔لیکن اسکا یہ مطلب نہیں ہے کہ یہ بات بالکل نآپید ہے ایسے بھی جوان آپکو نظر آئیں گے کہ دور سے بڑوں کیلئے جگہ بناتے ہیں۔لیکن یہ تعداد میں کم ہیں۔البتہ چین کی وہ نسل جنکی عمر  پینتیس یا چالیس کےقریب یا اوپر ہے ان میں یہ اچھی عادت بدرجہ اتم پائی جاتی ہے وہ اس امر کا بہت خیال رکھتے ہیں۔
       





ووچینگ(تیانجن)
ووچینگ تیانجن شہر کا حصہ ہے۔یہ ایک نیا صنعتی شہر ہے جو تیانجن کی حکومت نے تعمیر کیا ہے۔ووچینگ بہت بڑے اور وسیع علاقے پر مشتمل ہے۔اسکی سیر کے لئے جیسا کہ ایک جگہ میں بتا چکا ہوں کہ چائنا ریڈیو انٹر نیشنل نے حسب معمول ہمارے لئے ایک سیر کا  انتظام کیا۔
جب ہم پہنچے تو مقامی حکومت نے ہمارا استقبال کیا۔ہمارے  لئےتفریح کا بھی انتظام کیا گیا تھا۔ہم نے صنعتی تعمیرات اور انتظامات کے علاوہ وہاں پر آبادکئے گئے اور نئے بنائے گئے ماڈل گاؤں کو بھی دیکھا۔اسکے مکینوں سے ملے یعنی کسانوں سے انکی زندگی کو دیکھا اور یہ بھی دیکھا کہ حکومت کسانوں کو جدید سہولیات سےآراستہ گھر کیسے فراہم کرہی ہے۔
یہ نیا گاؤں تو ہمیں ایسا لگا جیسا کہ گاؤں کے پُر سکون ماحول میں تمام جدید سہولیات سے آراستہ پیراستہ جدید مکانات فراہم کیں گئیں ہیں۔یہاں پر کھلی سڑکیں تعمیر کیں گئیں ہیں۔اور صحت وتعلیم  کا انتظام بھی کیا گیا ہے۔
 ایک بات بتاتا چلوں کہ چینی حکومت کا طریقہ کار مختلف ہے اورمختلف اکائیاں  قائم کیں گئیں ہیں ان میں کچھ شہری ریاستیں ہیں۔جیسے کہ بیجنگ ،شانگھائی،اور تیانجن ۔
   یہ ایسے شہریں ہیں جو براہ راست مرکزی حکومت کے تحت چلائیں جاتے ہیں۔ تیانجن بیجنگ کے قریب واقع ہے۔بیجنگ اور تیانجن کے درمیان  ٹرین کا بہترین نظام موجود ہے۔شروع میں تقریباً ایک گھنٹہ لگتا تھا لیکن بیجنگ اولمپیک گیمز کیلئے  ایک شٹل ٹرین شروع کیا۔فاصلہ گھٹ کر تیس منٹ کا رہ گیا۔ووچینگ تیانجن اور بیجنگ کے درمیان واقع ہے۔آپ سڑک کے ذریعے بھی یہاں آسکتے ہیں اور ٹرین کے ذریعے بھی۔
   ہمیں بتایا گیا کہ میں یہاں پر تعلیمی  سہولیات دستیاب ہیں اسلئے افرادی قوت کی فراوانی ہے۔یہاں تک رسائی بھی آسان ہے۔اور اسے مزید بہتر بنانے کیلئے کوششیں کی جارہی ہیں۔
  حکومت زمین اور بجلی کے ساتھ ساتھ افرادی قوت بھی فراہم کررہی ہے۔اور آنے والے کارخانو اور کارخانہ داروں کو  کو آسانیاں بھی دی جائیں گی۔
   ہم نے یہاں کے دیہات اور پانی کے تالاب بھی دیکھے ۔یہاں پر پرندوں کیلئے بھی سہولیات مہیا کیں گئیں ہیں اور جنگلی حیات کے تحفظ کیلئےاقدامات اختیار کیں گئیں ہیں۔یہاں پر کافی جنگلی  حیات پائی جاتی ہیں اور خانہ بدوش پرندے بھی آکر بسیرا کرتیں ہیں بچے پیداکرتے ہیں اور موسم گزار کر وآپس جاتی ہیں۔
    میرے ساتھ ترجمانی کے فرائض انجام دینے کیلئے زہرہ(دینگ دینگ) گئی تھی۔وہاں سے ہم پروگرام کیلئے رپورٹنگ بھی کرتے رہے۔
  


ایک دن دیوار چین پر
  جیسا کہ آپ جانتے ہیں۔کہ خلا ءسے زمین پر جو چیز دکھائی دیتی ہے ایک لکیر کی شکل میں وہ دیوار چین ہے۔ دیوار چین  زمانہ رفتہ کی یادگار ،جو ایک طرح سے مصر کے اہرام کی طرح قدیم ہے۔ہزار کلو میٹر سے زیادہ طویل دنیاکے اٹھ عجوبوں میں سے ایک ہے۔جس پر چین اتنافخر کرسکتا ہے جتنا کہ مصر اہرام مصر پر اور یا  دریائےنیل پر اور پانامہ کنال پر۔
 کہتے ہیں چین نے قدیم میں جو منصوبے شروع کئے وہ تین تھے ایک زمین کے سطح کے اوپر دیوار چین۔زمین کے اندر  ترپان کے کاریز،اور ژجیانگ کے آبیاری کا منصوبہ دریاؤں پر یا پانی پر۔
                        ایک دن مجھے آسیہ نے آکر بتایا کہ صبح سویرے تیار ہونا۔میں نے آپ لوگوں کیلئے انتظام کیا ہے تاکہ آپ لوگ دیوار چین کی سیر کرسکو۔دیوار چین کو چینی میں چانگ چن کہتے ہیں۔
     چین میں جگہ جگہ ٹریول ایجنسیاں ہیں جو مختلف علاقوں کے ٹور یعنی سیر و تفریح کے پروگرام ترتیب دیتی ہیں۔اسطرح کی ایک ایجنسی سے رابطہ کرکے آسیہ نے میرے آپنے بھائی ،بہن اور والدہ کیلئے بکنگ کی تھی۔ہم صبح سویرے تیار ہوگئے اور میں انکے گھر گیا۔وہاں سے ہم سویرے نکلے۔ایجنسی کی گاڑی آگئی اور ہمیں  خہ پینگ من لے گئی۔وہاں پر ایک بڑی جدید خوبصورت آرامدہ بس ہمارا انتطار کررہی تھی۔ہم سب بس میں بیٹھ گئے ۔آہستہ آہستہ جب سارے لوگ آگئے۔جنمیں خواتین اور خصوصا ً نوجوانوں کی تعداد زیادہ تھی۔تھوڑی دیر بعد گاڑی نے ایک چکر لگآیا۔ہمیں تیان انمن سکوائر لے گیا اور صبح جب سورج کی پہلی کرن نمودار ہوئی تو فوجی مشق کے ساتھ چین کا قومی جھنڈا اوپر چڑھآیا گیا یعنی لہرآیا گیا۔یہ ایک نہایت خوبصورت منظر ہوتا ہے اور بہت سارے چینی یہ منظر دیکھنے کیلئے آتے ہیں۔ہم نے بھی یہ نظر دیکھ لیا۔اسکے بعد گاڑی روانہ ہوگئی اور کوئی ایک ڈیڑھ گھنٹہ بعد ہم دیوار چین پہنچ گئے ۔ ہمیں ٹیم لیڈر نے کہا کہ دو گھنٹے کا وقت ہے گھوم پھر لو اور پھر اس جگہ پہنچ آنا ٹائم پر۔
میں ،یوسف،روقیہ اور ماں جی ۔اٹھے اور دوسرے لوگوں کے ساتھ دیوار چین پر چڑھنے لگے۔ہم اس وقت سیڑھیوں پر چڑھ رہے تھے جو بہت ہی سیدھے اور کھڑے تھے۔لیکن یہ سماں دیکھنے سے تعلق رکھتا تھا۔ہر بندہ خوش اور پر جوش نظر آرہا تھا۔جیسے میلہ لگا ہو۔آسیہ کی والدہ چونکہ ضعیف تھی اسلئے انکو میں اور ویسف سہارا دیتے رہے۔ویسے ایک بات بتاتا چلوں کہ چین کے بزرگ لوگ اگر بوڑھے یا عمر رسیدہ ہوتے ہیں۔تو پھر بھی انکی صحت اچھے ہوتے ہیں اور کافی چاق و چوبند ہوتے ہیں۔یہ لوگ کم کھاتے ہیں۔ورزش باقاعدگی کے ساتھ کرتے ہیں۔اسلئےانہیں گھومنے پھرنے میں کوئی مسئلہ نہیں ہوتا۔ماما ہمارے مدد کی محتاج تو نہیں تھی لیکن پھر بھی حفظ ما تقدم کے طور پر ہم انکے ساتھ رہے۔
     جب ہم کافی اوپر گئے اور ایک چھوٹی پر پہنچ گئے۔تو ہمیں جو مسرت حاصل ہوئی وہ لفظوں میں بیان کرنا مشکل ہے۔میرے سامنے وہ وقت آیا اور وہ مناظر آنکھوں کے سامنے گھومنےلگے جب یہ دیوار تعمیر کی جارہی تھی۔یہ دیوار ایسی مشکل ترین اونچی پہاڑی چھوٹیوں پر تعمیرکی گئی ہے کہ ان پر ویسے خالی ہاتھ چڑھنا مشکل ہے اور پھر ایسی دیوار بنانا تو عقل کی نہ ماننے والی بات ہے۔مگر قدیم چین کے بادشاہوں نے یہ کرشمہ کر دکھآیا ہے۔دیوار پہاڑوں کی چھوٹیوں پر بل کھاتی ہوئی ایک لمبے اژدھے کی طرح  گئی ہے۔ایسے علاقوں سے گزری ہے کہ جہاں رہائش بھی ممکن نہیں ہے۔یہ دیوارسمندر سے شروع ہوتی ہے اور دور اندرونی منگولیا میں جاکے ختم ہوتی ہے۔ حکومت چین اسکی حفاظت کیلئے اقدامات کرتی رہتی ہے اور دیوار چین کی سیاحت کو بھی فروغ دے رہی ہے۔
                جہاں جہاں ممکن ہے وہاں پھر کھانے پینے اور تفریح کے سہولیات مہیا کی جارہی ہیں۔آپکو دیوارچین کے اوپر فوٹو گرافر تصویریں بناتے ہوئے مل جائیں گے۔اور دیوارچین کے  نقش ونگار سے آراستہ چیزیں بھی آپکو مل جائیں گی۔
    دوگھنٹے دیوارچین پر گزارنے کےبعد ہماری ٹیم وآپسی کیلئے چل پڑی۔لیکن یہ دو گھنٹے ایسے لگے جیسے ہم روایتی داستانوں کے کوہ قاف کےپریستان میں آکر پریوں کے درمیان کسی میلے میں شریک ہوئے ہو۔کیونکہ ہر طرف پریاں ہی پریاں تھیں ۔وآپسی پر ہمیں ایک چینی ادویات کے مرکز میں لےجآیا گیا۔جہاں پر چینی ماہرین طب بیٹھے تھے اور مفت طبی معائنہ کررہے تھے۔ساتھ ساتھ دوائیاں بھی فراہم کی جارہی تھی۔اسکے بعد ہمیں سنگ یشب کے ایک مر کز کی سیر بھی کرائی گئی۔جہاں پر چین کے سنگ یشب کے حوالے کافی ساری معلومات فراہم کیں گئیں۔اور اسکے بعد ہمیں نمائشی ہال لے جایا گیا ۔نمائشی ہال میں سنگ یشب سے تیار شدہ ہر قسم کی اشیا ءاور زیورات رکھی گئی تھیں۔جسمیں خواتین خصوصی طور پر نو خیز لڑکیاں کافی دلچسپی لے رہی تھیں اور انہوں نے کافی ساری خریداری بھی کرلی۔
       یہ بھی آپکو بتاتا چلوں کہ چین سیاحت کو فروغ دینے کیلئے تمام ممکنہ اقدامات اٹھارہی ہے۔ہماری آج کی یہ سیرو تفریح بھی اسکا ایک حصہ ہے۔یہاں پر ہمیں مختلف عجائب گھر بھی دکھائے گئے۔
ہمیں ایک ایسے عجائب گھر لے جآیا گیا جسمیں قدیم تہذیب کو دکھآیا گیا تھا۔جسمین اسوقت کےامراء اور عام لوگوں کو ایسا دکھآیا گیا تھاکہ انکی زندگی کے بارے میں کافی معلومات حاصل ہوگئیں تھیں۔یہ سب چیزیں دیکھنے سے تعلق رکھتی ہیں۔ اسمیں غلامانہ دور سے متعلق بھی معلومات فراہم کیں گئیں ہیں۔ 
          اسکے علاوہ تبت سے متعلق ایک نمائشی علاقہ بھی ہیمیں دکھآیا گیا جسمیں بوتالا محل کے بڑے بڑے ماڈل بنائے گئے اور تبت سے متعلق کافی معلومات سیاحوں کیلئے فراہم کیں گئیں ہیں۔بھر حال ہمارا یہ سفر بھی یادگار سفر تھا اور اج کی سیر وتفریح ہمارے لئے بہت ہی اہم اور ناقابل فراموش ہے۔
     یہ سب کچھ میرے دوستوں کی مہربانی اور میرے چینی میزبانوں کی محبت ہے۔    ایسے یاد گاریں تو پاکستان میں بھی بہت ہیں لیکن زمانے کے دست برد سے انکو بچانے والا کوئی نہیں اورطالبان کے بھیس میں قوم دشمنوں نے تو رہی سہی کسر بھی ایسی پوری کرلی یا ان سے پوری کروائی گئی یاتو انکو مسخ کرلیا اور یا بموں سے اڑالیا۔ان لوگوں نے افغانستان میں اسلئے یہ کام کیا کہ ماضی کے ساتھ انکا رشتہ ختم کیا جائے۔ ان سے آپنی ماضی کو بلآیا جائے۔بعینہ سوات میں اور صوبہ پختونخواہ میں  بھی ان باتوں کو دھرآیا جارہا ہے۔
                اثارقدیمہ کسی ایک ملک یا قوم کی نہیں پوری دنیا کا اثا ثہ ہوتے ہیں یہ قوموں کی تاریخ انکی ماضی کی داستان اور جدوجہد کو  نئی نسل تک منتقل کرتی ہیں۔جو قومیں آپنی ماضی کو یاد رکھتی ہیں وہ ہمیشہ آگےجاتی ہیں اور ترقی کرتی ہیں لیکن جو قومیں تاریخ سے نہیں سیکھتی اور ماضی سے ناطہ ختم کرتی ہیں تاریخ انکو بھی بھلا دیتی ہے۔






ارومچی
شنجیانگ کے دورے کےدوران ہمارا پہلا پڑاؤ ارومچی تھا ۔ارومچی کو  ہم ہوائی جہاز کے ذریعے پہنچے تھے۔میرے پاس اردو ترجمان کی حیثیت سے شاہین (چن شیانگ ) ساتھ دے رہے تھے۔ہمارا یہ دورہ بہت یادگار اور ناقابل فراموش دورہ ہے۔
       پہلی دفعہ جب ہمیں کہا گیا کہ شنجیاگ کے دورے پر جائیں گے تو میں بہت خوش تھا۔کیونکہ  شنجیانگ بہت مشہور ہے اپنے تاریخ ،ثقافت اور  معدنیات کیلئے اوریہ بھی کہ یہ چین کا سب سے بڑا صوبہ ہے۔شنجیانگ کی اکثریت مسلمانوں کی ہے مگر اور بھی  بہت ساری قومیتیں یہاں پر آباد ہیں۔
جب ہمیں کہا گیا کہ جانے کی تیاری کرو تو ان دنون شنجیانگ میں نسلی فسادات کا واقعہ رونما ہوا۔اور یوں تحفظ امن کی خاطر یہ دورہ ملتوی کرنا پڑا۔ان دنوں میں امریکہ جانا چاہ رہا تھا ایک تو دس بارہ سال تک اپنے چھوٹے بھائی افتخار کو نہیں دیکھا تھا جو کہ امریکہ میں مقیم ہیں دوسرا میرےچچا عالمگیر کی یاد بہت ستا رہی تھی جنکو ۱۹۸۲ کے بعد نہیں دیکھا تھا اور انکی صورت دیکھنے کیلئے ترس گئے تھے۔اسلئے میں نے فیصلہ کیا تھا کہ امریکہ سےجاکر ان سے ملکر آؤں  کیونکہ پھر پاکستان سے نکلنا اور وقت نکالنا بڑا مشکل ہوتا ہے۔چنانچہ شنجیانگ کے دورے کے خاطر میں نے ایک مہینہ بعد کا ٹائم انٹرویو کیلئے چن لیا تھا۔اب جب دورہ لیٹ ہوا تو میرے ساتھ یہ فکر دامن گیر ہوئی کہ کہیں یہ اکھٹے نہ ہوجائے۔اور وہی ہوا کہ جب میں نے ویزے کیلئے انٹر ویو دیااور پاسپورٹ جمع کرایا تواگلے د ن شاہین صاحب نے بتایا کہ جناب دس یا پندرہ دن بعد ہم شنجیانگ جائیں گے۔ اور یوں میری پریشانی کا آغاز ہوگیا۔لیکن یہ اُمید تھی کہ ایک ہفتہ بعد پاسپورٹ مل جائے گا۔انہوں نے یہی کہاتھا  کہ ایک ہفتہ بعد آکر لے جاو ٔیہی اُمید بندھی رہی مگر اللہ کا کرنا کیا ہوا کہ پاسپورٹ نہیں ملا میں روزانہ جینگوومن جایا کرتاتھا صبح شام مگر پاسپورٹ نہ ملا اور ہمارے جانے کا دن بھی قریب آگیا۔دوسری طرف میرے ساتھ بیجنگ کے غیر ملکیوں کے تعلقات کے شعبے کا سرٹیفیکیٹ بھی تھا سی آر آئی کا شناختی کارڈ بھی ساتھ تھا۔اسلئے مجھے بظاہر کوئی مسئلہ نظر نہیں آرہاتھا۔اور آخر جب ہم جانے لگے اور ائراپورٹ پہنچے تو ائرپورٹ کے پولیس نے پاسپورٹ کا مطالبہ کرلیا۔اور ہمیں جانے سے روک دیا۔ہمارے شعبے کے انچارج نے انکو سمجھایا  مگر وہ نہ مانے اور اپنے بڑے افسر کو بلایا۔وہ بہت اچھےآدمی تھے انہوں نے غور سے ہماری بات سنی  اور پھر اپنے افسران بالا کو سمجھایا اور اس طرح مجھے جانے کی اجازت مل گئی اور انہوں نے کہا کہ وہاں پہنچ کر اپنے میزبانوں  (جو کہ شنجیاگ کی حکومت تھی س)سے ایک پرچی بنوانا تاکہ آپکو مسئلہ پیش نہ آئے ورنہ مشکلا ت  میں پھنس جاؤگے۔اسی طرح پہنچتے ہی ہم نے پہلا کام یہی کیا اور مجھے گھومنے پھرنے کی آزادی مل گئی۔اس دن میں نے دیکھا کہ سی آر آئی(cri) کا عملہ خصوصاً اور چینی لوگ عموماً کتنے اچھے تعاؤن کر نیوالے اور مدد کرنیوالے ہیں ۔
   اسی دن ہمارے افسران بالا یعنی جناب بایڑیشنگ جوکہ ہمارے شعبہ کے سربراہ تھے ،اور سی آر آئی کے ڈپٹی ڈائریکٹر جناب ژانگ فو شنگ اور شعبہ بیرونی تعلقات کی سربراہ خاتون۔۔۔۔۔۔۔ مجھے تسلی دیتے رہے اور انکے ماتھے پر شکن تک نہیں آئے بلکہ کہتے تھے کہ جناب آپکے کاغذات پورے ہیں لیکن ہمارے پولیس کو پاسپورٹ چاہیے کیونکہ یہ قانون ہے اور اسی طرح شاید میں دنیا کا واحد بندہ تھا جو بغیر پاسپورٹ کے چین میں ہوائی جہاز کے ذریعے گھو ما پھرا  جسکے بارے میں سوچنا بھی ممکن نہیں ۔ یہاں یہ بھی معلوم ہوا کہ یہ لوگ اپنے مہمان کا کتنا خیال رکھتے ہیں اور اپنے قانون کا کتنا احترام کرتے ہیں انہوں نے ہر طرح سے تعاؤن کرکے میرا یہ دورہ ممکن بنایا۔
شنجیانگ ایک کثیرالقومیتی علاقہ ہے۔لیکن یہاں پر اکثریت ویغور قومیت کی ہے جو مسلمان ہیں اور انکو مکمل مذہبی آزادی حاصل ہے۔یہاں کے لوگوں کا معیارزندگی کافی بلند ہوا ہےشنجیانگ کا شہر ارومچی  بہت ہی خوبصورت شہر ہے یہاں پر ہم نے اس شہر کا عجائب گھر بھی دیکھا یہاں پر سیرو سیا حت کے مختلف مقامات بھی دیکھے۔شینجیانگ کے دورے کے دوران ہمیں یوں محسوس ہوا کہ یہ علاقہ ترقی کے منازل بہت تیزی سے طے کررہا ہے حکومت اب اس علاقے کو خاص توجہ دے رہی ہے یہاں پر سڑکوں کے جال بچھائے گئے ہیں آمدورفت کےذرائع کافی ترقی یافتہ ہیں یہ صوبہ چین کے ہمسایہ ممالک خصوصی طور پروسطی ایشیائی ممالک کے ساتھ ملحق ہے وسطی ایشیائی ریاستوں اور پاکستان کے ساتھ تجارت بھی ان علاقوں کے ذریعے ہوتی ہے اسلئے یہ خطہ جغرافیائی لحاظ سے چین کیلئے نہایت اہم ہے اور حکومت چین اسکو خاص توجہ دیتی ہے۔
  شنجیانگ کی جغرافیائی اور لسانی اہمیت کے پیش نظر کچھ قوتیں اس علاقے میں نسلی اور لسانی فسادات او گروہی  منافرت کو فروغ دینے کیلئے کوششیں کرہی ہیں۔ہمارے آنے سے پہلے کے واقعات بھی اس سلسلے کی کڑیاں لگتی ہیں ۔اگر ایسے واقعات ہوتے رہے تو اس علاقے کی ترقی میں خلل واقع ہوگی۔جو نہ تو اس علاقے کی لوگوں کیلئے بہتر ہے نہ مسلمانوں کیلئے اور نہ دنیا کے اس خطے کیلئے، کیونکہ اگریہاں امن واماان تباہ برباد ہوگا جسطرح  کہ دنیا کے دوسرے ممالک میں ہورہا ہےاور اگر یہ اگ ایک مرتبہ بھڑک اٹھی تو یہ پورے وسطی ایشیائی ممالک اور دیگر پڑوسی ممالک کو بھی بری طرح لپیٹ میں لے لے گا۔جسطرح کہ آج کل افغانستان کے حالات سے نہ صرف جنوبی ایشیا  بلکہ پوری دنیا پر اثر ات مرتب ہورہے ہیں۔
شہر ارومچی کو ہم نے دیکھا یہاں سے ہم ترپان بھی گئےجو دنیا میں اپنے پھلوں، قدیم تہذیب اور اثار قدیمہ کیلئے مشہور ہے۔شہر ارومچی بہت خوبصورت صاف ستھرا اور جدید ہے ۔
یہاں کے کھانے بھی شہرت رکھتے ہیں ۔یہ شہر مختلف ثقافتوں اور تہذیبوں کا سنگھم ہے۔
 ارومچی کا عجائب گھر:۔
یہ بہت ہی مشور عجائب گھر ہے اسمیں شنجیانگ کے پندرہ قومیتوں کی تاریخ اور ثقافت محفوظ ہے۔اسمیں یہاں کی کتابوں مصنفین ،کپڑوں اور بود وباش کے  نمونے رکھے گئے ہیں ۔ان میں سب سے دلچسپ چیز میرے لئے خصوصاً یہاں کے ممی ہیں۔
یہ ممیاں تعداد میں تو کم ہیں مگر ہیں بڑی عجیب۔ایک تو  یہ کسی نے بنائے نہیں ہیں بلکہ قدرت نے محفوط کئے ہیں۔یعنی یہ کہ یہ ریت می ندھنس گئیں تھیں اور اسطرح یہ لاشیں سوک گئیں اور پھر  ریت میں ہی محفوظ پڑی رہیں۔اسلئے انکو دیکھ کر حیرت ہوتی ہے اس زمانے کی تہذیب اور ثقافت کا پتہ چلتا ہے۔انکو دیکھ کر آپکو اس زمانے کے کپڑوں، جوتوں ،لباس اور رہن سہن کا اندازہ ہوتا ہےان ممیوں کو دیکھ کر انسان انگشت بدندان رہ جاتا ہے اسوقت کے انسانوں کے بال انکا رنگ اور کپڑوں کا رنگ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ اسوقت بھی یہ سب چیزیں اتنی ترقی یافتہ شکل میں موجود تھیں۔
   ہوائی بجلی گھر:۔
         ارومچی سے ترپان جاتے ہوئے راستے میں ایک وسیع علاقے پر آپکو بہت سارے لوہے کے اونچے اونچے پنکھے نظر آینگے ۔جو ہوا کے ساتھ گھومتے ہیں ۔یہ ہوا دینے کیلئے نہیں لگائے گئے ہیں بلکہ ہوا کے ذریعے گھوم کر بجلی پیدا کرتے ہیں۔یعنی یہاں پر ہوا ہمیشہ ایک رخ میں چلتی ہے اس سے حکومت چین نے یہ فائدہ اٹھایا کہ یہ بڑے بڑے ہوا سے چلنے والے ٹربائن نصب کئے اور اس سے بجلی پیدا کی جاتی ہے۔یہ جتنی بجلی پیدا کرتے ہیں ارومچی شہر کے ضروریات کو پورا کرنے کے لئے کافی ہے۔  اگر  ہوا کم ہو تو پھر پن بجلی سے شہر کے ضروریات کا پورا کیا جاتاہے۔ان ٹربائن پر خرچہ کم آتا ہے یہ ماحول دوست ہیں اور توانائی کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے نہایت سستا اور اہم ذریعہ ہے ۔چین کی یہ خوبی ہے کہ وہاں کی حکومت   اپنی ضروریات کو پورا کرنے اور قوم کو فائدہ پہنچانے کیلئے ہر وہ قدم اٹھاتی ہے جو ضرورت پوراکرنے کے ساتھ ساتھ انکو کم قیمت پر دستیاب ہو۔یہی وجہ ہے کہ حکومت قیمتوں کو بھی قابو میں رکھتی ہے۔
 جب آپ شنجیانگ جاتے ہیں اور پھر ارومچی سے ترپان جاتے ہوئے آپ کا گزر ہو اسے بجلی پیدا کرنے والے اس علاقے سےضرور ہوتا ہے سڑک کے دونوں کناروں پر آپ انہیں دیکھ سکتے ہیں
چین توانائی کے شعبے میں کافی ترقی کرچکا ہے توانائی کے تمام ذرائع کو بروئےکار لارہا ہےاوریہ ایشیا  میں اپنی نوعیت کا سب سے بڑا بجلی گھر ہے۔
  ارومچی کی جھیل:۔
ارومچی سے کوئی دو ڈھائی گھنٹے کے گاڑی کے دو ڑ پر ایک جھیل واقع ہے جو دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے ۔ہم نے ایک دن ادھر گزارا۔اس جھیل تک پہنچنے کیلئے ایک بڑی شاہراہ تعمیر کی گئی ہے۔سفر بہت ہی پُر سکون اور آرامدہ ہے۔جب آپ اس جھیل کے علاقے میں پہنچتے ہیں تو ایک ہوٹل ہے،ساتھ ہی ایک اس جھیل اور علاقے کی عجائب گھر ہے۔اور ساتھ ہی ایک ماڈل بھی ہے عجائب گھر میں یہاں کے آثار رکھے گئے ہیں اور ساتھ ان جانوروں کے نمونے بھی ہیں جو یہاں پر پائےجاتے ہیں۔یہاں سے جھیل تک چار طریقوں سے پہنچا جاسکتا ہے ۔پیدل،گھوڑوں کے ذریعے،برقی لفٹ کے ذریعے اور اپنی گاڑی کے ذریعے۔
    ہم نے پیدل جانے کا راستہ چن لیا تھا۔یہ ایک ناقابل فراموش  سیر تھی ۔پیدل جانے کیلئے سارا  راستہ لکڑی کے تختوں پر ایسا بنایا گیا ہے کہ ماحول کے تحفظ کا بھی انتظام کیاگیا ہے۔اور ساتھ ہی ایسے تختے لگائے گئے ہیں کہ آپکو نہ تو تھکاوٹ محسوس ہوتی ہے اور نہ اکتاہٹ۔راستے میں چھوٹی چھوٹی جھیلیں اور بھی ہیں۔قدرتی مناظر ،اونچے درخت،گھاس اور سبزہ ہر سو پھیلا ہوا غرض ایسا لگتاہے کہ ہم پریستان میں آگئے ہیں۔راستے میں صفائی کا بہت خیال رکھا گیا ہے اور جگہ جگہ آپکو خوبصورت ڈرم جو ماحول کے مناسبت کے ساتھ بنائے گئے ہیں رکھے گئے ہیں ہزاروں کی تعداد میں سیاح یہاں آتے ہیں لیکن مجال ہے کہ کہیں کچرے کا ایک ٹکڑا بھی نظر آئے۔ سارے راستے   پر سیاحوں کیلئے بیچ لگائے گئے ہیں تھکے ہوئے سیا حون کے سستانے کیلئے۔جب آپ یہاں پہنچتے ہیں تو ایک خوبصورت جھیل آپکے نظروں کو ٹھنڈک اور فرحت بخشتی ہے اور حسین مناظر  ذہن سے تھکاوٹ کو رفو کرتےہیں۔آپ تازگی محسوس کرتے ہیں۔اور ایک گونہ مسرت حاصل کرتے ہیں۔اس جھیل میں کشتیاں بھی ہوتی ہیں جو آپکو جھیل کی سیر کراتی ہیں۔آپ ان میں بیٹھ کر گھوم پھرسکتے ہیں۔ یہاں پر خیمے روایتی انداز میں لگائے گئے ہیں جن میں قزاق،منگول اور ویگور شامل ہیں اور انکے رویتی انداز میں کھانے پیش کئے جاتے ہیں۔یہاں پرآپکو ایک گائیڈ ساتھ لینا پڑتا ہے جوآپکو اس علاقے کے بار ے میں بتاتے ہیں اور بہت ساری معلومات فراہم کرتے ہیں۔
یہ تو میں بتا چکا ہوں کہ چین سیاحت کی  صنعت کو بہت توجہ دیتا ہے اور اسکےلئےہر ممکن قدم اٹھاتا ہے۔چین میں سیاحت آسان بھی ہے اور محفوط بھی۔ ذرائع آمدورفت بہتر ہیں۔ یہ علاقہ دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔


تر پان کی امین مسجد
تر پان میں ایک مسجد بھی ہےجو امین مسجد  کے نام سے مشہور ہے ہم اس مسجد کو دیکھنے کیلئے بھی گئے۔یہ مسجد مٹی یعنی گارے اور لکڑی سے بنائی گئی ہے۔اسکو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ اسکو ابھی ابھی تعمیر کیا گیا ہے۔کہنے کا مقصد یہ ہے کہ اسے اصلی حالت میں رکھا گیا ہے۔اور اسکی حفاظت اچھے طریقے سے کی جاتی ہے اسے اب قومی وراثت میں بھی شامل کیا گیا ہے اسلئے اسکی اہمیت مزید بڑھ گئی ہے۔
   مسجد  کے ساتھ کمرے اور برآمدے تعمیر کئے گئے ہیں ۔اسکا ایک بڑا حال ہے جسمیں بہت سارے نمازی اکھٹے نماز ادا کرسکتے ہیں۔مسجد کے ساتھ تقریبا ًتین سو میٹر اونچا ایک مینار بھی ہے جو بہت ہی خوبصورت اور با وقار ہے۔کہتے ہیں یہ ایک مسلمان  حاکم نے بنائی تھی اسکو باد شاہ نے یہ مسجد تعمیر کرنے کی اجازت دی تھی۔یہ مسجد اسلامی فن تعمیر کا ایک نایاب و نادر نمونہ ہے۔اسکی ڈیزائن وسطی ایشیائی اور جنوبی ایشیائی عمارات کی طرح ہے اسکا صدر دروازہ بھی اسی فن تعمیر کا ایک شاہکار ہے۔کسی حد تک یہ کاشغر کے بڑے عید گاہ مسجد کی طرح ہے۔مسجد کے حال میں بہت سارے قالیں بچھائے گئے ہیں ۔چونکہ یہ ساری مسجد گارے کی بنائی گئی ہے اسلئے اب اسکا استعمال کم کردیا گیا ہے تاکہ خراب نہ ہو۔    امین مسجد ایک نہایت خوبصورت اور اسلامی فن تعمیر  کا شاہکار ہے ،اسکے حال میں تقریباً ہزار سے زیادہ لوگ کھڑے ہوکر نماز ادا کرسکتے ہیں۔  مسجد کےحال میں بہت سارے قالین بچھائےگئے ہیں۔
جیاو خہ یا یارغل کا قدیم شہر
ارومچی سے ترپان تقریباً ۱۸۶ کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے اور ارومچی کو ترپان سے ایک بہت بڑی شاہراہ کے  ذریعے ملایا گیا ہے۔اس شاہراہ پر ارومچی سے ترپان جاتے ہوئے آپ ہوائی بجلی گھر سے گزریں گے تو آگے کھارے پانی کا جھیل آئےگا۔کہتے ہیں کہ اسمیں کوئی چیز ڈوب نہیں سکتا کیونکہ نمک کی وجہ سے پانی بہت کثیف ہے ۔اور یہاں نمک کے کارخانے بھی ہیں اورکافی   سفید نمک یہاں سے حاصل کیا جاتا ہے۔
یہ امر دلچسپی سے خالی نہ ہو گا کہ شنجیانگ سمندر سے کافی بلندی پرواقع ہے اور یہاں سخت سردی بھی پڑتی ہے۔لیکن ترپان شنجیانگ کے بیچ میں واقع ہونے کے باوجود اتنی گہرائی میں ہے کہ یہ سطح سمندر سے نیچے واقع ہے۔اور بہت ہی گرم علاقہ ہے ۔
جب آپ مزید آگے بڑھیں گےتو آپ  کے راستے میں ایک اُجھڑاہوا شہر بھی آئے گا۔یہ دنیا کے ان شہروں میں سے ایک ہے جو مکمل مٹی کے بنے ہوئے ہیں اور جو مکمل حالت میں موجود ہیں۔مکمل سے مطلب یہ کہ جتنے علاقے پر بنا تھا وہ پورا موجود ہے۔ایک اور بات کہ یارغل یا جیاو خہ ایسا شہر تھا کہ جو ۱۸۰ قبل مسیح میں باقاعدہ طور پر منصو بہ بندی کے مطابق آباد کیا گیا تھا اور اس کیلئے زمین کاٹ کریہ شہر تعمیر کیا گیا تھا۔اور یہ پانچ سو سال تک پایہ تخت رہا۔
   اسمیں سرکاری دفاتر اور بادشاہ کا محل اور اسکےخزانے کے کمرے اب بھی موجود ہیں۔شہر کے وسط میں سرکاری دفاتر کے ساتھ بچوں کا قبرستان ہے جسمیں کوئی ۲۰۰ بچے دفن ہیں ۔یہ وجہ معلوم نہ ہوسکی کہ شہر کے وسط میں بچوں کا قبرستان کیوں بنایا گیا تھا اور یہ کہ یہ بچے ایک ہی وقت میں کسی حادثے میں انتقال کرگئےتھے یا  کوئی اور وجہ تھی۔شہر کے کھنڈر بتاتے ہیں کہ یہ اپنے دور کا خوبصورت  اور منصوبہ بندی کے مطابق بنایا گیا شہر تھا۔
یہاں پر ایک اور بات بھی قابل ذکر ہے اور وہ یہ کہ حکومت نے یہاں پر راستے ایسے بنائے ہیں کہ آپ آسانی کے ساتھ گھوم پھر سکتے ہیں۔ہر جگہ کوڑا کرکٹ ڈالنے کیلئے ٹھوکریاں نصب کی گئی ہیں اور سیاحت کو ماحول دوست بنایا گیا ہے جتنے بھی لوگ یہاں آجاتے ہیں یہاں کے ماحول پراثر نہیں پڑتا۔اور نہ یہاں کی قدامت یا آثار خراب ہوسکتے ہیں ۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ چین میں سیاحت کتنی ترقی یافتہ اور محکمہ سیاحت سیاحت کے فروغ اور ترقی میں کتنی دلچسپی لیتی ہے۔
  جیاو خہ سے مختلف زبانوں میں مخطوطے بھی حاصل ہوئے ہیں جو زیادہ تر چینی(خان) ،ویغور اور منگول زبان میں لکھے گئے ہیں۔اسکے علاوہ دیگر آثار قدیمہ یا آثار  بھی ملے ہیں ان نوادرات میں اس زمانے میں استعمال ہونے والے اشیا،اور برتن شامل ہیں۔



کا شغر(کاشی)
کاشغر  جسے چینی لوگ کاشی کہتے ہیں پراناشہر ہے ۔یہاں کی آبادی کی اکثریت مسلمان ہیں اس شہر میں جب ہم پہنچے تو میں نے شاہین سے کہا ایسا لگتا ہے جیسے میں پاکستان  میں ہوں۔کاشغر شہر  پاکستانی شہروں جیسا ہے ۔کاشغر شہر کا وقت بھی پاکستان کی طرح ہے۔پاکستان اور کاشغر کا مقامی وقت ایک جیسا ہے۔ویسے کاشغر کا معیاری وقت بیجنگ کا وقت ہے۔لیکن در حقیقت کاشغر کا مقامی وقت بیجنگ سے تین گھنٹے پیچھے ہیں۔اس سے آپ چین کےوسیع رقبے کے بارے میں سوچ سکتے ہیں کہ چین کتنا بڑا ملک ہے۔
   کاشغر کی آبادی ویغور قومیت پر مشتمل ہے ۔ویغور  زبان ترکی زبان کی طرح ہے۔بلکہ مجھے تو ایسی لگی جیسا کہ یہ ترکی زبان کا ایک لہجہ ہو۔یہ عربی رسم الخط میں لکھی جاتی ہے۔اسلئے تھوڑے کوشش کے ساتھ اسے پڑھا جاسکتا ہے۔یہاں دوکانوں، بازاروں، سڑکوں اور سرکاری دفاتر کے بورڈ چینی اور ویغور  دونوں زبانوں میں لکھے جاتے ہیں۔
ویغور خواتین فر اک کی طرح قمیص اور پاجامہ پہنتی  ہیں جبکہ مرد پتلون اور قمیص کے اوپر ایک لمبا چغہ بھی پہنتے ہی اور سر پر کلاہ پہنتے ہیں ۔اسطرح مسلم خواتین بھی سر کو ڈھانپتی ہیں اور اپنے ثقافت کے مطابق پردے کا مکمل انتظام کرتی ہیں۔
   کاشغر کے کھانے بھی وسطی ایشیا ،چینی اور پاکستانی ثقافت کے سنگھم کا حسین امتزاج ہیں۔ایک جگہ ہم نے دیکھا کہ کہ پراٹھے  پکائے جارہے ہیں ہم نے جب ہوٹل والے سےمعلومات حاصل کرنا چاہے تو انہوں نے بتایا کہ کہ وہ خود چینی ہیں لیکن پاکستانیوںکیلئے انہوں نےکھانوں کے ساتھ اردو زبان بھی تھوڑی سیکھی ہے اور جو لوگ مطالبہ کرے تو وہ پاکستانی کھانے بھی پکا سکتے ہیں۔ہم نے یہاں کے کھانے کھائے بڑے ہی مزیدار اور خوشبو دار تھے انکی خوشبو نے ہمارے اشتیاق کو مزید بھڑکایا۔  ہم نے قدیم کاشغر کے کچھ گھرانو کے گھر بھی دیکھے  ۔انکو دیکھ کر ایسا لگا جیسے کسی پاکستانی گھر میں داخل ہوئے ہوں۔
  ہم نے پرانے گلیوں کو بھی دیکھا اسمیں گھومےپھرے۔اور ان گلیوں کے ثقافت  کو محسوس کیا۔یہ مجموعی طورپر پرانی ٹھیڑی میڑی گلیاں تھیں جیسے پرانے شہر لاہور،پشاور  وغیرہ۔
اب چینی حکومت نے یہ اقدام اٹھا یا ہے کہ شہر کی قدامت کو برقرار رکھا جائے اور ساتھ ساتھ اسکو محفوظ اور نئے سہولیات سے آراستہ کیا جائے ۔اسکے لئے اب انہیں پرانے نقشے اور ڈیزائن کے مطابق جدید سہولیات جیسے پانی ،بجلی ،گیس ،ٹیلیفون، اور ٹی وی کیبل سے آراستہ کیا جائے۔اسکے ساتھ ساتھ یہ ہوادار بھی ہو۔اور شہر کی قدامت بھی متأثر نہ ہو ۔اسکے لئے باقاعدہ منصوبہ بندی کی گئی ہے اور ہم نے اسے بہت سے گھر دیکھے۔
     کاشغر کے لوگ بھی دو طبقوں میں منقسم ہیں کچھ وہ جو اپنی روایتی زندگی کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں اور کچھ وہ جو جدید طرز زندگی اپنانا چاہتے ہیں۔قدامت پسند وہ لوگ تھے جو چاہتے تھے کہ ہمارے گھر بالکل اسی نقشے اور ڈیزائن میں بنائے جائے جیسے کہ وہ ہیں۔انہی لوگو ں میں بعض ایسے تھے جو اپنے پرانے قدیم کھڑکیاں اور روشندان کا استعمال کرنا چاہتے تھے۔انکے لئے انکے مطالبے کے مطابق گھر بنائے جارہے تھے ،ہم نے دیکھا کہ کچھ گھر ابھی تیار نہیں ہوئے ہیں لیکن مالک اسمیں رہنے لگے ہیں۔ تعمیراتی کام بھی جاری ہیں اور وہ بھی ادھر رہائش پذیر ہوگئے ہیں بہت سارے لوگ بہت خوش تھے ۔ایک گھر کے بزرگ نے بتایا کہ اسکے چار بچے ہیں اور انکیلئے اتنے ھی کمروں کا مکان بنایا جارہا ہے۔اور یہ مکان دو منزلہ تھا ۔اس بزرگ نے بتایا کہ میں ایک منزل میں اپنے خاندان کے ساتھ رہوں گا اور ایک منزل سے ہوٹل بناؤں گا اس طرح میری آمدنی میں اضافہ ہوگا۔
چینی حکومت کا یہ اقدام بہت اچھا لگا کہ ایک تو یہاں کی جو قدیم زندگی ہے یعنی یہاں کی روایتی زندگی کو بھی محفوظ کیا جارہا ہے اور دوسری طرف انکو جدید سہولیات سے مزین کیا جارہا ہے۔
دوسرے فکر کے لوگوں کیلئے جو جدید مکانات میں جدید سہولیات کے ساتھ زندگی گزارنا چاہتے ہیں انکےلئے بڑے بڑے فلیٹ تعمیر کیے جارہے تھے جن میں کچھ مکمل ہوگئیں تھیں اور کچھ تکمیل کے مراحل میں تھے ہم ان لوگو ں سے بھی ملے ۔ انکے مہمان بننے کا شرف حاصل کیا اور انکی مہمان نوازی دیکھی۔انکی طرز زندگی کا قریب سے مشاہدہ کیا ۔انکی مہمان نوازی روایتی تھی اور اسمیں پیار محبت اور خوشی کا عنصر بھی شامل تھا۔
اسکا یہ مطلب نہیں کہ کاشغر بالکل ہی قدیم ہے ۔نہیں ایسا بھی نہیں ہے۔کاشغر کو جدید بنایا گیا ہے اور متمول خاندان،یہاں کا کاروباری طبقہ اور سرکاری اہلکار جدید مکانوں میں رہتے ہیں اور پر آسائش زندگی گزاررہے ہیں ۔کاشغر کی آبا دی میں غربت کے اثار بھی پائے جاتے ہیں لیکن یہ شہر قدیم اور  جدید زندگی کا سنگھم ہے دونوں دوبدوش چلتے ہیں۔
کاشغر کے بازار میں گھومنے پھرنے کے دوران اجنبیت کا احساس نہیں ہوا۔یہہاں سب  لوگ اب خوش نظر آرہے تھے۔یہاں کی خواتین بھی مردوں کے شانہ بشانہ کام کرتی نظر آئیں۔لوگوں کو اپنےلئے رزق کمانے کی مکمل آزادی ہے۔ایک چیز جو پورے چین میں آپکو ملے گی وہ یہ کہ موٹر سائیکل یا سائیکل کو تین پہیوں کا بنا یا جاتاہے۔اور اس سے سواری کے ساتھ ساتھ  ایک قسم کے وزن لے جانے والی گاڑی کا کام لیا جاتا ہے۔یہ تین پہیوں والے سائیکل بیجنگ میں بھی بہت ہیں لیکن کاشی میں اسکو کثرت کے ساتھ دیکھا۔یہاں جگہ جگہ موٹر سائیکل سوار بھی نظر آئے جو سواریوں کیلئے کھڑے تھے ۔اور  موٹر سائیکل پر سواریوں کو لے جانے اور اسی طرح رزق کمانے کا کام عروج پر ہے۔یہ لوگوں کیلئے ایک قسم کا سستا روزگار ہے یا یہ کہہ سکتے ہیں کہ خود روزگاری ہے۔
کاشغر کے خواتین بھی بہت محنتی ہیں وہ بھی مردوں کے دوش بدوش کام کرتی نظر آئیں۔جب ہم ادھر تھے تو اگلےدن روزہ شروع ہونے والا تھا۔میں نے لوگوں سے پوچھا کہ روزہ کب ہے تو انہوں نے کہا کہ کل ۔۔اگلے دن سعودی عرب،اکثر اسلامی ممالک اور صوبہ پختونخواہ میں روزہ تھا جبکہ باقی پاکستان میں اس سے ایک دن بعد اعلان ہوا تھا۔اگلے دن یعنی روزہ کے پہلے دن جب ہم بازار گئے تو معلوم ہوا کہ روزہ ہونے کے ناطے بازار دیر سے کھلیں گے اور ہوٹل سارے بند تھے۔  ہم کاشغر کے بازاروں میں گھومے پھرے اور یہاں پر سڑک کے کنارے کھلے بازار بھی دیکھے۔
  کاشغر میں ایک بات جو ہم نے دیکھی وہ یہ کہ یہاں پر گلی گلی میں بہت ہی خوبصورت مساجد تعمیرکیں گئیں ہیں۔جنکے بڑے بڑے مینار تھے اور انکو بڑی خوبصورتی کے ساتھ مزین کیا گیا تھا۔
جن دنوں ہم کاشغر کے دورے پر تھے ان دنوں تھوڑی سی کشید گی پائی جاتی تھی یا یہ کہ حکومت محطاط تھی اسلئے ہمیں کہا گیا تھا کہ زیادہ دور اور ہر جگہ جانے سے گریز کریں لیکن اسکے باوجود ہم تقریبا جہاں جاسکتے تھے ہم گئے۔ یہ ضرور ہم نے دیکھا کہ فوجی گاڑیوں میں سڑکوں پر گشت  کررہے تھے ۔ اور ہر قسم کے حالات سے نمٹنے کیلئے تیار نظر آئے۔لیکن عوام کے چہروں پر ہم نے ایسا کوئی تأ ثر نہیں دیکھا جو یہاں پر حالات کی کشیدکی غمازی کرے۔
بھر حال یہ با ت طے ہے کہ یہاں کے لوگ اب ترقی کے ثمرات حاصل کرہے ہیں اور انکے معیار زندگی میں فرق آرہا ہے۔حکومت کو بھی یہ احساس ہوچکا ہے کہ یہاں پر امن اور خوشحالی کیلئےبہترین راستہ یہاں کی ترقی اور معاشی خوشحالی میں مضمر ہے۔اسلئے حکومت اس علاقے کو ترقی دینےکیلئے ہر طرح کی اقدامات اختیار کرہی ہے۔یہاں سے پاکستان جانے کیلئے کم وقت لگتا ہے اور آگے بارڈر ہے۔یہاں سے پاکستان کے ساتھ تجارت کے بہترین مواقع موجود ہیں۔اور حکومت لوگوں کو تمام وسائل مہیا کرنے اور تجارت کو فروغ دینے کیلئے ہر موقع فراہم کررہی ہے۔
کاشغرکا ذکر   اور عیدگاہ مسجد کا ذکر نہ ہو تو بات ادھوری سمجھی جائیگی۔ہم اسکا ذکر ضرور کریں گے لیکن پہلے  کاشغر کے بازاروں اور پارک کا ذکر۔اسکے بعد تفصیل کے ساتھ مسجد عیدگاہ اور مقبرہ خوجہ گان کا ذکر کرونگا۔
دورے کے دوران ہمیں کہا گیا کہ ہم بازار جائیں گے اور وہاں پر آپ خریداری بھی کرسکتے ہیں اور ساتھ ساتھ مختلف لوگوں سے بھی سے بھی مل سکتے ہیں۔اور ہم کاشغر کے ایک بہت بڑے مارکیٹ گئے جہاں پر ہر قسم کی چیزیں مل سکتی ہیں یعنی کپڑوں،زیورات،تانبے کھانسی کی بنی ہوئی اشیاء اور دیگر اشیاء آپ خرید سکتے ہیں ۔اس مارکیٹ میں پاکستان سے امپورٹ کہ گئیں بہت ساری ڈیکوریشن کی اشیاء اور کپڑے بھی دستیاب تھیں۔یہ بہت بڑی بین الاقوامی نوعیت کی مارکیٹ ہے یہاں پر آپکو ختن کے پتھر یعنی قیمتی پتھر مل سکتے ہیں اور اسکی خوبصورت مصنوعات بھی مل جاتی ہیں ۔ ان پتھروں پر کاریگر اسوقت آپ کے سامنے بھی نقش و نگار کرسکتے ہیں اور آپکی مرضی کے مطابق آپکے لئے اس بناسکتے ہیں۔یہاں کی کاریگری بھی دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے۔۔یہاں پر سستے سے سستا اور قیمتی سے قیمتی پھتر آپکو مل سکتے ہیں۔ویسے چین میں سنگ یشب کا استعمال بہت زیادہ ہے اور اسکی مصنوعات بہت زیادہ استعمال کی جاتی ہیں۔آپکو ہر جگہ اور ہر مارکیٹ میں کچھ نہ کچھ مصنوعات خصوصی طور پر لاکٹ مل جائیں گے۔
کاشغر کے مارکیٹوں میں پاکستانی مصنوعات دیکھ کر مجھے ایک گونہ خوشی حاصل ہوئی تھی۔پاکستان سے زیادہ تر ،جانماز،کشیدہ کاری کی اشیاء،سکارف،تانبے اور کھانسی کے تزئین و آرائش کی اشیاء،اور کپڑے لائے گئے تھے۔اگر ہماری تاجر برادری ایمانداری اور حسن صحت کے ساتھ سامان لانا چاہے تو بہت سی اشیاء یہاں لائی جاسکتی ہیں۔لیکن اسکے ساتھ ساتھ چینی قوانین کا احترام کریں اور وہاں کے ضروریات کو ملحوظ خاطر رکھے۔ اسی دن ہم کاشغر کی عیدگاہ مسجد اور خواجہ گان کا مقبرہ دیکھنے کیلئے بھی گئے۔اسکی علاوہ ہم کاشغر کے سب سے بڑے پارک بھی گئے۔اسمیں ہم گھومے پھرے۔اسمیں چیئرمین ماوزے تنگ کا مجسمہ بھی نصب ہے اسی پارک میں ہم نے غروب آفتاب کا مشاہدہ بھی کیا جو بہت ہی خوبصورت تھا ۔اسکے علاوہ ہم یہاں کے ایک دوسرے پارک میں بھی گئے باور اسکے برقی جھولے میں سوار ہوگئے ۔جس نے بڑی مشکل سے ایک چکر پورا کیا۔غالبا ًاسکے موٹر میں خرابی تھی ۔جب ایک دفعہ اوپر جانے لگے تو درمیان میں آدھے راستےمیں  اس نے واپسی کا سفر شروع کیا۔ میں اور شاہین ایک ہی جھولے میں بیٹھے تھے اسلئے خوب بپتیاں کی اور ہنس ہنس کر اسکا مزہ اٹھایا ۔جب یہ جھولا سب سے اوپر پہنچا تو ہم نے کاشغر شہر کو رات کے اندھیرے میں دیکھا۔پورے شہر میں ایسی روشنی تھی جیسے پورے شہر میں چراغان کیا گیا ہو۔اسوقت کاشغر بہت پر اسرار لگ رہا تھا۔ہم نے کوشش کی کہ جتنے شہر کو دیکھا جاسکتا ہو سب کا نظارہ کیا جائے۔ کافی دیر تک ہم باہر گھومتے رہے  اور ہمیں کہیں بھی کسی خطرے کا احساس نہیں ہوا۔بالکل ایسا لگا جیسا کہ کوئی بیس سال پہلے سوات کا تھا۔جب رات کو ہم نکل کر گھوم پھر سکتے تھے ۔اس زمانے میں سوات کو ایشیاء کا سویئزر لینڈ کہا جاتا تھا۔یہاں ہر طرف امن تھا۔اور لوگ بھی پر امن تھے ۔ابھی سازشوں کے شکار نہیں ہوئے تھے۔ہم رات کو گھروں سے نکل کر چاندنی راتوں میں کھیتوں میں جاکر اسکا مزہ لیتے تھے اب اسکے بارے میں صرف سوچا جاسکتا ہے۔
   کاشغر کی اس ایک رات نے میرے ذہن میں ماضی کی بہت ساری کھڑکیاں کھولی تھیں اور مجھے بہت کچھ یاد آرہا تھا۔پشاور کا آرمی سٹیڈیم جہاں پر رات کو اسی طرح برقی  جھولے میں بیٹھ کر ہم نے پشاورشہرکا نظارہ کیا تھا۔لیکن آج وہ حالات نہیں رہے تھے اور جو خبریں اور نقشہ میڈیا پیش کر رہی تھی وہ کوئی خوشکن نہیں تھیں۔۔
عیدگاہ مسجد اور خوا جہ گان کا مقبرہ
کاشغر کی   عید گاہ مسجد دنیا کے بڑے مساجد میں سے ایک ہے جس میں ہزاروں نمازی بہ یک وقت نماز کیلئے کھڑے ہوسکتے ہیں۔یہ تعمیری لحاظ سے اسلامی طرز تعمیر کی شاہکار ہے ۔اسکی تاریخ کوئی چھ سو سال پرانی ہے۔مسجد اپنی اصلی حالت میں اب بھی محفوط ہے۔
 یہ ایک بڑے صدر دروازے ،باغ،صحن اور مسجد کے ہال پر مشتمل ہے۔   مسجد کا حال بہت بڑا ہے اور وسیع ہےہال کے مرکز میں امام کے محراب کے ساتھ ہی چھت پر اسماءحسنہ لکھے گئے ہیں اورفن خطاطی کے شاہکار ہیں مسجد کے محراب کا خوبصورت رنگوں کے  پھولوں  اور نقاشی سےسجایا گیا ہے۔مسجد کے چھت کو سہارا  دینے کیلئے لکڑی  کے خوبصورت ستونوں سے مدد لی گئی ہے یہ ستون سارے سبز رنگ کے ہیں   ۔  مسجد کے چھت کو خوبصورت بنانے کیلئے پلاسٹر آف پیرس کا استعمال کیاگیا ہے۔اور پھر اسکو بھی نقش و نگار  سے آراستہ کیا گیا ہے۔
     اسکے علاوہ بھی مسجد کے اندر سبز رنگ کا استعمال زیادہ کیا گیا ہے کیونکہ سبز رنگ کو اسلامی رنگ سمجھا جا تا ہے۔مسجد میں داخل ہونے کیلئے صدر دروازے سے جانا پڑتا ہے جو مسجد کی پہچان ہے اور چین میں اسلامی کیلنڈر بھی بہت زیادہ استعمال ہوتا ہے اسکے علاوہ کاشغر کی نمائندہ نشانی ہے۔یعنی باہر سے جب آپ مسجد کو دیکھتے ہیں تو بہت ہی شاندار اور پر وقار لگتی ہے۔ جمعہ کی نماز میں نمازیوں کی تعداد تیس ہزار تک پہنچ جاتی ہےجبکہ عیدین کی نمازوں میں یہ تعداد ستر ہزار تک پہنچ جاتی ہے۔
     مسجد سے باہر کے عقب میں خواجہ گان کا مقبرہ ہے۔کہتے ہیں کہ خواجہ کا خاندان وسطی ایشیاء سے یہاں آکرآباد  ہوا۔انہوں نے خاصی شہرت حاصل کرلی تھی اور یہاں کے امراء میں شمار ہونے لگے۔چین کے بادشاہ چیان لونگ نے انکی پوتی سے شادی کرلی۔اور اسی طرح وہ خوشبودار ملکہ کے نام سے مشہور ہوگئی۔اس ملکہ کا چینی نام شیانگ فیی تھا۔اس ملکہ کو انتقال کے بعد بیجنگ سے کاشغر لایا گیا اور یہاں اپنے خاندان کے ساتھ دفنایا گیا۔اس مقبرہ میں پورا خواجہ خاندان بمعہ بچوں کے دفن ہے۔ان سب کے اوپر ایک گنبد بنایا گیا ہے جسکی اونچائی۲۶ میٹر  اورچوڑائی ۱۷ میٹر ہے۔
 مقبرے کی عمارت کے دروازے پر اسمیں دفن سب لوگوں کے نام درج ہیں۔اندر خوبصورت ٹائلوں سے مزئین ہے اور اس پر فارسی زبان میں ایک شعر بھی لکھا گیا ہے میرے خیال میں اگر کوئی ماہر زبان اسکو غور سے پڑھے گا تو وہ اس شعر سے اسکا  سن تعمیر  یا سن وفات معلوم کرسکتاہے۔ اس مقبرے کے متصل ایک دوسری بڑی مسجد ہے جسے جمعہ مسجد کہتے ہیں اور یہ شنیجیانگ میں دوسری بڑی مسجد ہے یہ ۱۸۷۳ میں تعمیر کی گئی تھی۔یہ تمام اپنی اصلی حالت میں موجود ہیں ۔جب آپ یہاں آتے ہیں تو ایک گونہ اثر  ذہن پر پڑتا ہے اور آپ ایک خاص قسم کا سرور محسوس کرتے ہیں۔چینی حکومت ہر سال ان عمارات کی حفاظت کیلئے ایک خاص رقم مختص کرتی ہے۔
       خواجہ گان کے مقبرے کے ساتھ متصل ایک مسجد ہے جسے جمعہ مسجد کہتے ہیں۔یہ مسجد لکڑی اور مٹی سی بنائی گئی ہے۔اسکا ایک وسیع ہال ہے جسمیں قالین بچھائے گئے ہیں یہ تعمیر کے لحاظ سے جنوب مگربی ایشیائی اور وسطی ایشیائی فن تعمیر کا نمونہ ہے ۔بڑا وسیع کھلا ہال ہے درمیان میں چھت کو لکڑی کے ستونوں سے سہارا دیا گیا ہے۔یہ مسجد اندر سے مجھے پشاور کی مسجد نظرآئی۔سوات میں پرانی آبادی میں جو لکڑی مزئین ستون اور شہتیر استعمال ہوتے تھے بعینہی ایسے ہی تھی۔اس مسجد میں بہت سارے نمازیوں کی گنجایش موجود ہے۔








دو ہفتے امریکہ میں
امریکہ کا ذکر یہاں پر آپکو عجیب لگے گا نا۔۔ہے نہ عجیب بات ۔۔کہ بات ہورہی ہے پریوں کے دیس کی  ۔۔۔تو پھر امریکہ کا یہاں کیا کام۔تو جناب اسکا بہت ہی قریبی تعلق ہے۔شینجیانگ سے واپسی کے بعد میں امریکہ چلا گیاتھا۔ اور شینجیانگ کے سیر کے حصےمیں میں نے اس بات کا ذکر کیا تھا کہ میں نے امریکہ کے ویزے کیلئے پاسپورٹ جمع کرائی تھی اور مجھے شینجیانگ جاتے ہوئے بڑے مشکلات کا سامناکرنا پڑاتھا۔
        ہوا یہ کہ ایک دن مجھ سے میڈم مہوش نے پوچھا تھا کہ رشید آپکی چھٹیاں ہونگی سال میں ایک مہینہ کہاں گزارنا چاہتے ہو،میں نے کہا کہ دو باتیں ہیں یا تو چین میں گھوم پھر لونگا اور یا کوشش کروں گا کہ امریکہ اپنے بھائی اور چچا سے ملنے کیلئے چلا جاؤں۔ کیونکہ میں نے اپنے چھوٹے بھائی کو گزشتہ گیارہ بارہ سال سے نہیں دیکھا تھا اور میرے چچا کو جو مجھے بہت عزیز ہیں کو امریکہ گئے ہوئے بیس سال ہوچکے ہیں ان سے بھی مل لوں گا۔ اور جب سال کے آخری دن آئے تو میں نےامریکہ کے ویزے کیلئے درخواست دیدی۔سفارتخانے والوں نے کہا کہ ویزا مل جائیگا  مگر تھوڑا ٹائم لگے گا ۔ میرا  خیال یہ تھا  کہ ویزا  جلدی مل جائے گا  میں امریکہ میں ایک مہینہ گزار دونگا  مگر ویزا  واقعی لیٹ ہوا  اسمیں کوئی دو مہینے لگے۔اور ادھر میں نے اپنی چھٹی لینے کو طوالت دی تاکہ میری چھٹیاں  ضائ ع نہ  ہو ۔اور آخر کار مجھے چھٹی لینی پڑی۔ میں ان دنوں سوچ رہا تھا کہ اگر ویزا لیٹ ہوا تو میری چھٹیاں ضائع ہو جائیں گی۔ کیونکہ پاسپورٹ میرے ساتھ نہیں تھا اسلئے کہیں دوسرے شہر جانے کا رسک میں برداشت نہیں کرسکتا تھا۔اتفاق سے جس دن میری چھٹی شروع ہوئی اگلے دن مجھے فون آیا کہ آپ کا پاسپورٹ آچکا ہے آکر لیجائے۔میری خوشی کی انتہا نہ رہی۔میں نے فوراً اپنے بھائی  کو فون کیا کہ میں آرہا  ہوں ۔ پاسپورٹ جیسے ہی لایا ۔آسیہ نے فورا ً میرے لئےہوائی جہاز کی سیٹ بک کرا  لی اور تین دن  بعد میں سیاٹل کیلئے روانہ ہوا۔
   سیاٹل جانے کی تیاریوں میں میں سوچ میں پڑگیا کہ کیا لے جاوں اور کیا نہیں ۔ میرے  بھائی نے امریکہ سے کہا کہ کچھ لانے کی تکلیف مت کرنا۔ میں سوچ رہاتھا کہ بیجنگ کی سوغات لے جاؤں۔اور اسطرح میں نے انکے لئے بیجنگ کی مشہور پرسلین کے نمائش کی چیزیں خرید لی تھی۔خصوصا ًاسلامی اقدار کی عکاس۔
آسیہ نے کہا کہ اپنے بھائی کیلئے ہماری طرف سے بھی کچھ لے جاؤں اور انہوں نے بیجنگ کے مشہور پکے ہوئے بطخ لیکر دئیے۔مجھے یہ معلوم نہیں تھا کہ ان چیزوں کے لے جانے پر پابندی ہے۔توکل کرکے لے گیا۔سیاٹل ائر پورٹ پر اترنےکے بعد جب کاغذات کی جانچ پڑتال سے فارغ ہوا تو انہوں نے کہا کہ کیا لائے ہو میں نے کہا دو بیجنگ روسٹ بطخ۔کسٹم والے نے کہا جناب اس پر تو پابندی ہے۔میں نے عرض کیا کہ میں تو یہ سوغات کے طور پر لایا ہوں۔ انہوں نے کہا ٹھیک ہے اگر زراعت والے اجازت دیں تو لے جاؤ ہم کچھ نہیں کہیں گے۔
 جب محکمہ زراعت والے کی باری آئی ۔تو کہنے لگے جناب یہ تو جرم ہے ۔۔آپ کیوں لائے ہیں میں نے کہا یہ بیجنگ کی سوغات ہیں تو انہوں نے کہا کہ مجھے افسوس ہے ہم اسکی اجازت نہیں دے سکتے یہ غیر قانونی ہیں۔اور دونو ں بطخ کو ردی کے ٹھوکری میں پھینک دیا۔اور  وہاں سے جاکر میں ٹرین میں بیٹھ کر ٹرمینل کی طرف چلا گیا جہاں میرا بھائی میرا  منتطر تھا۔ اپنے بھائی سے میں کافی عرصہ بعد ملا تھا ۔ہم دونوں کو بہت خوشی  حاصل ہوئی تھی اوراہم بہت خوش تھے انکے بچوں کو بھی میں نے پہلی دفع دیکھا۔
      امریکہ ایک آزاد ریاست ہے۔آزاد اس معنی میں کہ جب آپ امریکہ میں داخل ہوتے ہیں۔تو آپکا جی جہاں چاہے آپ جاسکتے ہیں۔کہیں بھی پولیس سٹیشن پر رپورٹ کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔نہ آپ سے کوئی پوچھتا ہے۔ہم جب ائر پورٹ سے نکلے تو کبھی بھی کسی نے نہیں پوچھا کہ آپ کہاں جا رہے ہیں اور کہاں سے آئے ہیں۔میں جب نکلتے وقت پاسپورٹ جیب میں رکھتا تھا تو میرا بھائی ہنستا تھا کہ اسکی ضرورت نہیں ۔یہ  امریکہ  ہے۔وہ کہتا  تھا  مجھے  پندرہ  بیس سال ہو گئے  ہیں آج  تک کسی نے نہیں پوچھا۔میں اس کو کہتا تھا احتیاط بہتر ہے۔پاکستان اور امریکہ کے مقابلے میں چین میں یہ قانون ہے کہ آپکو پہلے جاکر پولیس سٹیشن میں رپورٹ کرنا پڑتا ہے۔ ورنہ اگر پکڑے گئے تو مجرم سمجھے جاؤگے اور اسکی سزا  ڈپورٹیشن یعنی ملک بدری ہے۔
   اگلے دن میرے چچا بھی  ارکنساس سے ہوائی جہاز کے ذریعے تشریف لائے تھے۔انہوں نے میرے بھائی سے کہا تھا۔کہ رشید کو مت بتانا کہ میں آرہا ہوں اور میرے سرپرائز  کیلئے  میرے بھائی نے بھی اسے خفیہ رکھنے کی کوشش کی ۔جب ہم نے سیاٹل ائر پورٹ پر انکا  استقبال  کیا  تو خوشی سے میرے آنسوں نکلے۔میں اپنے  چچا  کے ساتھ ۱۹۸۲ کے بعد ملاتھا۔وہ بھی بہت خوش تھے اور امریکہ میں خصوصی طور پر انکےلئےگیاتھا۔
   امریکہایک ترقی یافتہ ملک ہے اور بہت آگے جاچکا ہے۔اور پھر سیاٹل امریکہ کا صدا بہار سر سبز ریاست ہے۔ایک ہی وقت میں آپکو چاروں موسم کے پودے ایک ہی جگہ نظر آئیں گے۔سیاٹل اپنے قدرتی حسن  کیلئے مشہور ہے ، اور یہ بھی اچھی بات تھی کہ بیجنگ سے سیاٹل کیلئے براہ راست پروازیں چلتی ہیں۔یہاں پر چینی کمیونٹی بھی ہے۔اور ہم نے یہاں پر چینی ریسٹورانٹ بھی دیکھ لئے ۔تو بات میں کررہا  تھا کہ سیاٹل ایک بہت  ہی خوبصورت شہر ہے جن دنو ں میں یہاں گیا تھا ۔موسم معتدل تھا ۔بیجنگ سے آتے ہوئے بہت گرم گرم کپڑے پہن کر آیاتھا۔مگر یہاں پراسکی ضرورت محسوس  نہیں ہوئی۔نہایت ہی خوشگوار موسم تھا۔ہم سیاٹل میں گھومے پھرے۔سمندر کے کنارے بھی گئے   اور پہاڑی علاقوں کی سیر بھی کی ۔سیاٹل واقعی دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔میرے بھائی چونکہ کافی عرصے سے امریکہ میں مقیم ہیں اور میڈیٹرانک کمپنی میں سینئر انجنیئر ہیں۔اسلئے بہت مصروف ہوتے ہیں اور انہیں وقت نہ مل سکا کہ آئے پھر ساتھ ساتھ بچوں کی تعلیم کا مسئلہ بھی آجاتا ہے اور نکلنا مزید مشکل ہو جاتا ہے۔
  یہاں پر آپکو  بتاتا  چلوں  کہ ہم تین  بھائی  ہیں اور ہماری ایک بہن ہے۔میرا ایک بھائی اپنی  فیملی کے ساتھ فرانس میں آباد  ہوگیا ہے چھوٹا بھائی امریکہ میں ہے اور بہن اپنی فیملی کے ساتھ ائرلینڈ میں آباد ہے ۔اب ہم سب بڑی مشکل سے اکھٹے ہوسکتے ہیں کیونکہ ہر خاندان کے اپنے مسائل اور حالات ہیں۔جب میں چین میں تھا تو میں نے سوچا ویسے بھی ملک سے باہر ہوں اور چھٹیا ں ہیں تو سب سے مل لونگا۔لیکن امریکہ کے ویزے کے حصول میں وقت لگا  تو پھر  باقی پروگرام منسوخ  کرنے پڑے  اور سیاٹل پہنچ گیا۔
بعض لوگ امریکہ کو خوابوں کی سر زمین کہتے ہیں۔اور واقعی کہ یہ خوابوں کی سر زمین لگتی ہے ۔ہم چونکہ کافی عرصہ بعد ملے تھے اسلئے زیادہ تر وقت ہم نے گھر پر ہی گزارا ۔میں اپنے  چچا  اور  بھائی کے بچوں کے ساتھ گھر پر رہا۔جب افتخار کام سے واپس آتا  تو  ہم  نکل  جاتے۔ اور ادھر ادھر کی سیر کرلیتے تھے۔
یہاں پر میں ایک بات کی وضاحت کرتا چلوں کہ میں نے امریکہ اور چین کے درمیان  موازنہ نہیں کیا۔یہ دونوں الگ الگ ملک ہیں انکا جغرافیہ اور تاریخ ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔اسی طرح میں نے کبھی پاکستان کا موازنہ انکے ساتھ نہیں کیا کیونکہ لوگ الگ ہیں ہماری ثقافت اور رسم و رواج الگ ہیں ترقی کا معیار مختلف ہے۔موسم اور آب و ہوا  میں فرق ہیں۔
اب ایک بات اور کہ چین جس رفتارسے ترقی کررہا ہے وہ بھی حیران کن ہے اور جس رفتار سے چین اپنے  ماحول کو بہتر بنا  رہا  ہے۔وہ بھی بہت حیران کن ہے۔ہر ایک ملک کی اپنی  خوبصورتی ہے۔اور اپنی ا پنی انفرادیت ہے۔
         سیاٹل میں سڑکوں پر جو چیز میں نے دیکھی وہ  یہ ہے کہ  سڑک کے فٹ پاتھ سے نیچے اگر کوئی پاؤں بھی رکھے تو ٹریفک رک جاتی ہے۔کئی  دفع  مجھے یہ تجربہ ہوا۔ہمارے ہاں یہ بات دیکھنےمیں آئی ہے کہ اگر کوئی سڑک پار کرنا چاہتا ہو۔تو گاڑیوں والے گاڑی کی رفتار کم کرنے کے بجائے اسے مزید بڑھادیتے ہیں تاکہ پیدل انسان سےپہلے گزر جائے۔ لیکن سیاٹل میں یہ بات بہت  بھلی لگی کہ لوگ پیدل جانیوالوں کا خیال رکھتے ہیں۔سیاٹل سمندر کے کنارے فطرت کے ساتھ ہم آہنگ شہر ہے۔یہاں پر آبادی قدرتی حسن کو متأثر کئے بغیر بنائی جاتی ہے۔اور اسے فطرت کے تقاضوں کے مطابق بنایا جاتا ہے۔
سیاٹل کے تیرتے ہوئے(فلوٹینگ برج) پل پر ہم کئی مرتبہ گزرے۔اسکے علاوہ گاڑی میں فیری پر بھی گزرے اور مختلف علاقوں میں گئے۔ہم لیون ورت اور سنوکوالمی بھی چلے گئے۔یہ نہایت خوبصورت علاقہ ہے۔یہاں پر بلندی پرایک جگہ جب ہم پہنچے تو بہت ٹھنڈک محسوس ہوئی۔ آگے جاکر ہم نے سنوکوالمی گاؤں  کو دیکھا۔جو نہایت خوبصورت ہے اورکہتے ہیں کہ شروع میں یہاں جرمن آباد ہوگئے تھے اور انہوں نے اسکی تعمیر میں جرمن طرز تعمیر اپنایا تھا۔میرے چچا نے جب اسے دیکھا تو انہوں نے کہا کہ یہ تو بالکل میونخ کی طرح ہے ۔اور وہ بہت حیران اور خوش ہوگئے تھے۔کیونکہ وہ مینخ  میں دوچار سال رہے تھے اور انکو میونخ بہت پسند ہے۔۔ہم نےبھی اسے خوب دیکھا۔بہت سے لوگ اس قصبے کی سیر کرتے ہیں جب انکو دو تین دن چٹھیا ںملتی ہیں تو ضرور یہاں آتے ہیں۔
        میں سیاٹل سے باہر نہ جاسکا  کیونکہ وقت اجازت نہیں دے رہا تھا۔اور یہ دو ہفتے ایسے گزر گئے کہ ہمیں پتہ ہی نہ چل سکا۔میرے آنے سے ایک دن پہلے میرے چچا چلے گئے اور اگلے دن میں بھی بیجنگ کیلئے روانہ ہوا اور بیجنگ پہنچ کر اگلے دن چینگھائی چلے گئے ۔
امریکہ بہت سے نوجوانوں کی خوابوں کی سرزمین ہے۔کیونکہ یہاں جوبھی گیا واپس نہیں گیا اگر گیا ہےتوبہت کچھ ساتھ لیکر گیا ہے  اور اس نے اپنے خواب ضرور پورے ہوتے دیکھا ہے۔میں یہ سب کچھ اسلئے نہیں لیکھ رہا ہوں کہ میں امریکہ سے متأثر ہوا ہوں۔بلکہ یہ حقیقت ہے اس سرزمین میں ایسی کوئی بات ضرور ہے۔امریکی حکومت کی پالیسیاں ضرور ایسی ہیں جو دنیا والوں کو پسند نہیں ہیں۔لیکن ہر ملک اپنی اور اپنے عوام کی مفادات حاصل کرنیےکےلئے ایسا کرتا ہے۔
امریکہ کو اسلامی دنیا میں اسکے پالیسیوں کیوجہ سے اچھی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا۔امریکہ کی اسرائیل نواز پالیسی اسلامی دنیا میں غم و غصے کا سبب ہے۔اور اب افغانستان میں انکی پالیسی کو قدر کی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا۔اسی طرح جنوب مشرقی ایشیا ء میں امریکی مداخلت بھی بہت ناپسندیدہ ہے۔امریکہ بے تحاشا دولت خرچ کررہا ہے مگر یہ دولت ترقی کی بجائے تباہی اور بربادی لارہا ہے۔امریکی حکومت امریکی عوام کے ٹیکسوں سے حاصل شدہ کامیابی سے باقی دنیا میں بربادی لارہا ہے جو دولت دنیا کی خوشحالی اور امن کیلئے استعمال ہونا چاہیے وہ ظلم ،تشدد اور بربادی کا سبب بن رہا ہے۔امریکہ کو بھی اسکا احساس ہے مگر اسکے پاس اس کا کوئی حل نہیں ہے۔ طالبان کی پیدا کرنے کا سبب بالواسطہ یا  بلا واسسطہ بھی امریکہ ہی ہے۔
    اُسامہ بن لادن کو لانے والا امریکہ اور اسکے حواری تھے جو اب پورے خطے میں تباہی کا سبب ہے۔جیسا کہ میڈیا بتا رہا ہے۔
  لیکن ایک بات طے ہے کہ امریکیوں نے امریکہ کو خوب بنایا ہے۔یہاں کی سڑکیں درخت۔واہ ۔واہ۔ہر جگہ انسان فطرت کے ساتھ ہم آہنگ دکھائی دیتاہے۔
    میرا  واپس جانے کو جی نہیں چاہ رہا تھا۔پنی دو بھتیجیوں اور ایک بھتیجے شمعروز خان کو چھوڑ کر واپس آنے کو دل نہیں کر رہا تھا۔وہ ابھی ایک سال کا تھا اور اس نے کھڑا ہونا سیکھ لیا تھا۔بہت ہی خوبصورت اور پیارا تھا۔جب میں واپس ہوا تو ایک ہفتے تک نہ کچھ کھانے  جی  چاہتا  تھا  نہ کچھ کرنے کو۔۔۔ہر وقت سارے بچے آنکھوں کے سامنے رہتے تھے۔ آج بھی یہی حال ہے۔۔۔۔اللہ ان سب پر رحم کرے۔۔۔۔اور انہیں خوشیاں دیں۔۔۔ امین
چینگھائی کی سیر
  چینکو میں نے جتنا دیکھا ہے دو صورتوں میں دیکھا ہےکچھ علاقے میں نے دیکھے جو چائنا ریڈیو انٹر نیشنل کی طرف سے دورےتھے ۔یہ سیر یا دورے جو میں نے کئے اسکا خرچ اور انتظام حکومت کی طرف سے تھا جیسے ووچینگ کا دورہ اور شینجیانگ کا دورہ جسمیں کاشغر اور ارومچی شامل ہیں۔اسکے علاوہ کچھ علاقے میں نے اپنے ذاتی خرچ پر دیکھے اور اپنی مرضی سے میں وہاں گیا،ان میں امریکہ کا شہر سیاٹل اور چینگھائی کی سیر شامل ہیں ۔یہ میں نے اپنے چٹھیوں کے دوران اپنے خرچ اور مرضی سے کئے۔یعنی یہ میرے نجی دورے یا  سیرتھی۔
       میری بڑی خواہش تھی کہ میں شی ان میں زیادہ وقت گزاروں لیکن یہاں میں نے صرف ایک دن گزارا۔تیانجن میں کافی دفعہ گیا اور وہاں مختلف جگہیں دیکھی۔ اسکے علاوہ میری بڑی خواہش تھی کہ میں جاکر شنژن دیکھوں،شانگھائی اور سوژو کی سیر کرون ہانگژو کے بہت سارے علاقے دیکھوں۔اگر زندگی نے وفا کی اور چین جانادوبارہ نصیب ہوا تو میں یہ علاقے ضرور دیکھوں گا۔
سرکاری دورے کے فائدے یہ ہوتے ہیں کہ میزبان وقت اور حالات کی مناسبت سے سارے مشہور علاقے اپنے مہمانوں کو دکھاتے ہیں جبکہ نجی دورے میں اپنے جیب ،وقت اور وسائل کو دیکھ کر سیر کی جاتی ہے۔بہر حال میرے دوستوں نے میرے لئے چینگھائی کی سیر کیلئے منصوبہ بندی کی تھی ۔میری خواہش تھی کہ یہاں کی جھیل ضرور دیکھوں مگر سردی کیوجہ اور وقت کی کمی کے باعث یہ ممکن نہ ہوسکا۔
    جب میں امریکہ سے وآپس آیا تو ہوائی اڈے پر آسیہ میرا انتظار کر رہی تھی اور انہوں نے لنژو کیلئے اگلے دن میں ہوائی جہاز کے سیٹ بک کرآئے تھے اور ٹکٹ اسکے پاس تھے ۔ ائر پورٹ سے ہم سیدھے ریسٹورانت چلے گئے جہاں ہم نے کھانا کھایا۔میں نے اپنا سامان درست کیا پیکنگ کرلی۔امریکہ سے جو سامان لایا تھاوہ آسیہ کے کزن کے پاس رکھ لیا ۔اور لے جانے والاسامان ساتھ لیا۔وہاں سے ہم ستار  صاحب کے گھر گئے ان سے ملنے کی منشاء یہ تھی کہ آسیہ انکو ان سے لیاگیا قرض واپس کرنا چاہتی تھی ۔ چونکہ آسیہ نے ریسٹورانٹ خریدنے کیلئے ان سے قرض لیا تھا اور اب ریسٹورانٹ کی ناکامی کیوجہ سے اور زیادہ اچھی آمدنی نہ ہونے کی وجہ سے اس نےر یسٹورانٹ بیچ دیا تھااور بیجنگ چھوڑنے کا سوچ رہی تھی۔۔اسلئے ہم مسعود ستار صاحب کے گھر گئے ۔ ہمارا  ارادہ  تھا کہ رات انکے گھر پر گزارینگے مگر وہاں پہنچ کر ہم نے فیصلہ ہی بدل دیا اور  میں تو سیدھا ہوٹل چلاگیا اور آسیہ اپنےکزن کے پاس بیجنگ یونیورسٹی چلی گئی جو امتحان کی تیاری مصروف تھی۔آسیہ نے جناب مسعود ستار سے قرض رقم لی تھی ریسٹورانٹ کیلئے ۔جب اس نے ریسٹورانٹ  فروخت کی تو اسے نقصان ہوا اسنے ستارصاحب سے کہا کہ تھوڑا انتظار کریں آپکو میں باقی رقم لوٹادوں گی۔انہوں نے ایک لاکھ دس ہزار یوان دئیے تھے جسمیں ایک لاکھ وآپس ہوگئے تھے مگر دس ہزارکم تھے۔آسیہ نے ایک مہینے کا  ٹائم  مانگا  اور کہا کہ میری رقم کسی کے پاس بند ہے جیسے نکلے گی میں آپکو دیدوں گی۔مگر   مسعو دستار صاحب ناراض تھے کہ اب کیا ہوگا۔بہر حال اگلے دن ہم بذریعہ ہوائی جہاز لنژو کیلئے روانہ ہوگئے۔بیجنگ میں برف باری ہورہی تھی جبکہ لنژو م کا موسم خوشگوار تھا۔نہ بارش تھی نہ برف سارادن دھوپ نکلا ہوتاتھا ۔ البتہ موسم میں خنکی ضرور ہوتی تھی۔لنژو سے خایشیوان،مینخہ ،شینینگ اور پھر شی ان کی سیر پر ہم نکلے اور شی ان سے واپس بیجنگ۔
اس دوران سارے سفر ہم نے موٹر کا ر،ٹیکسی،بس اور ریل گاڑی کے ذریعے کیے۔ اور ہر جگہ میں نے چین کی ترقی ،فلاحی کام اور عوام کی سہولیات کیلئے کئے جانے والے اقدامات دیکھے۔پاکستان اور چین کی تاریخ میں مماثلت بھی پائی جاتی ہے۔ماضی میں  دونوں غاصبوں کے غلامی میں رہے اور قریب قریب ادوار میں آزادی حاصل کرگئے جسکےلئے دونوں ممالک کے عوام نے ان گنت قربانیاں دی ہیں۔اسکے علاوہ ایک ہی دور سے آغاز کیا ۔اور ترقی کے منازل طے کئے۔مگر دونوں میں فرق یہ آیا کہ چین ترقی کرتا رہا ۔وہاں پر پالیسی جاری رہی اور بہتر ہوتی رہی جبکہ پاکستان میں پالیسی میں تسلسل قائم نہ رہا۔ساٹھ کے عشرے میں پاکستان کی پالیسی اور  ترقی کا رجحان قائم نہ رہا۔حکومتیں بدلتی رہی ساتھ ساتھ پالیسیاں بھی بدلتی رہی اور ہم اسی جگہ پر کھڑے رہے جبکہ چین آج ایک عالمی طاقت ہے۔پاکستان میں بدعنوانیاں اور اقرباء پروری، کرپشن اپنے زوروں پر رہی ہیں جبکہ چین اسکے سد باب  کیلئے کوششیں کرتا رہا۔ پاکستان  میں ایک دور میں کرپشن اپنے انتہا  کو پہنچ  گئی۔اسلئے  ملک اپنی  ترقی  کا رفتار قائم  نہ رکھ سکا۔جسکا  خمیازہ آج  پوری قوم بھگت رہی ہے۔
   چین نے آزادی کے بعد یعنی انقلاب کے بعد کمیونسٹ پارٹی کی سربراہی میں زبردست ترقی ہے۔مواصلات کے شعبے اور خصوصی طور پر ذرائع آمدو رفت میں چین کی ترقی بے مثال ہے۔ یہاں پر پورے ملک میں سڑکوں کا جال بچھایا گیا ہے اور سڑکیں بھی بڑی بڑی شاہراہیں بین الاقوامی  معیا ر  کے مطابق  بنائی گئیں ہیں۔ میں نے چین کی سڑکیں دیکھی ہیں اور بعض چیزیں ایسی ہوتی  ہیں کہ دیکھنے سے تعلق رکھتی ہیں۔پورے چین میں یہ سلسلہ جاری ہے اور نہایت دشوار گزار اور دور آفتادہ  علاقوں کو  ملک کے بڑے بڑے شہروں سے ملایا گیا ہے۔
اسکے علاوہ پورے ملک کو ہوائی راستوں کے ذریعے ملایا جا چکا ہے ہر چھوٹے بڑے شہر میں ہوائی اڈہ موجودہے اور پھر عوام کیلئے اسکی رعایتی ٹکٹ بھی دستیاب ہیں۔
  چینی حکومت عوامی ذرائع آمدورفت کو بہت اہمیت دیتی ہے اور اسکی ترقی کیلئے کوششیں کرتی ہے۔چین کی عوامی ذرائع آمدورفت مثالی ہیں۔
چین نے ریل گاڑی کے نظام کو بہت ترقی دی ہے ۔اور شٹل ٹرین بھی متعارف کروائی ہے زمین  دوز ٹرین  کا  نظام مثالی ہے۔میں نے  سناہے کہ دوسرے شہروں میں بھی یہ نظام  بہت  کامیاب  ہے۔چین کے تمام  بڑے چھوٹے شہروں اور علاقوں کو آپس میں ملانے کیلئے ٹرین کا بہترین نظام موجود ہے اور روز افزوں ترقی کرہا ہے۔
  دوسری طرف پاکستان جب سے بنا ہے اسکے ٹرین کے نظام نے کوئی خاطر خوا ترقی نہیں کی اور روافزون بد حال ہوتا جارہاہے۔۱۹۴۷  سے ریلوے پھٹڑی میں ایک انچ کا اضافہ نہیں ہوا بلکہ بہت سارے ٹرین بند کردیئے گئے۔اگر کبھی آپ ٹرین میں سفر کریں گے تو رش دیکھ کر حیران ہونگے مگر پھر بھی حیرانی کی بات ہے کہ یہ شعبہ پاکستان میں نقصان میں جارہا ہے۔صوبہ پختوننخواہ میں ایک مثالی اور کامیاب سرکاری ٹرانسپورٹ کا انتظام موجود تھا اسے بھی اسکے اثاثے ہڑپ کرنے کیلئے ختم کیا گیا تھا اور پرائیویٹ کمپنیوں کیلئے اس کو فیل کیا گیا۔ پاکستان ریلوے نے بہت سارے ریلوے ٹریک ختم کردیئے جو انگریزوں کے دور میں بنائے گئے تھے۔یہ دنیا  کا واحد محکمہ ہے جو پاکستان میں سب سے زیادہ استعمال ہوتا ہے اور خسارے میں جاتا ہے۔یہ سب رہنماؤں کا کیا دھر ا ہے۔چین کو بھی ہم نے دیکھ لیا پوری دنیا چین کی ترقی پر انگشت بدنداں ہے۔کہ یہ ملک کتنی تیزی سے ترقی کر رہا ہے نہ صرف صنعت بلکہ ہر میدان میں ۔سائنس میں بھی چین آگے ہے۔چین نے چاند پر بھی اپنے لوگوں کو اُتاردیا ہے ۔لیکن ہم کہاں کھڑے ہیں اور کیوں اسی ایک جگہ پر کھڑے ہیں۔پاکستان معدنیات کی وسائل سے مالامال  ہے۔لیکن انکا استعمال کیسے ہورہاہے۔ہم پانی کے دولت سے مالامال ہیں لیکن پانی کیلئے  ترس رہے  ہیں۔
   چین اپنے ان حصوں  کو واپس سواد اعظم کے ساتھ ملا رہا ہے جنکو الگ کرنے کی کوشیں کی گئی۔مگر چینی رہنماؤں نے ان حصوں کوواپس ملا لیا ۔ھانگ کانگ،مکاؤ وغیرہ ۔۔مگر پاکستان کے ساتھ کیا ہوا کہ مشرقی پاکستان سے ہاتھ دھولئے اور باقی کے پیچھے بھی سازشیں ہورہی ہیں۔
    چین اپنے  دور آفتادہ  علاقوں کی ترقی  کیلئے  ہر ممکن  قدم اٹھا  رہا  ہے اورہم ترقی کے نام پر ملک کو تباہ کررہے ہیں۔
  چینگھائی کی سیر کے دوران میں نے بہت کچھ دیکھا۔چین کی قوم اور رہنماؤں کو داد دیئے بغیر آپ نہیں رہ سکتے۔جب سب لوگ یہ سمجھنا شروع کرتے ہیں کہ ملک کی ترقی ہماری ترقی اسکی خوشحالی ہماری خوشحالی ہے۔توپھر وہ قوم اور ملک دن دوگنی اور رات چوگنی ترقی کرتی ہے اگر یقین نہیں آتا تو  آکر پریوں کے دیس کو دیکھ لیجیے۔
چینگھائی
            چینگھائی چین کا چوتھا بڑا صوبہ ہے ۔اس صوبہ میں بھی مسلمانوں کی کافی اکثریت ہے۔میں نے شینینگ،مینخہ،خای شہ وان اور  لی اڑبو کی سیر کرلی ۔ چونکہ وقت کی کمی اڑے آرہی تھی اسلئے زیادہ نہ گھوم پھرسکا۔لیکن پھر بھی اس تھوڑے سے وقت میں میں نے بہت کچھ دیکھ لیا۔میں نے یہاں کے مسلمانوں کی طرز زندگی،انکی شادی بیاہ،رسم و رواج،مہمان نوازی بھی دیکھ لی۔انکا اسلام کے ساتھ محبت بھی دیکھ لیا۔اور انکا مہمان بنا۔
  ویسے تو مسلمان سارے چین میں پھیلے ہوئے ہیں اور آپکو ہر جگہ نظرآئیں گے۔ لیکن چینگھایی میں انکی اکثریت ہے اور یہ ان صوبوں میں شامل ہیں جن میں مسلمان اچھے خاصے تعداد میں آبادہیں ۔
شنجیانگ میں ویغور مسلمانوں کی اکثریت ہے جو نسلاً  ترکوں کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں انکی زبان بھی ترکی کی طرح ہے اور عربی رسم الخط میں لکھی جاتی ہے۔ لیکن چینگھائی  کے مسلمان  جواپنے آپکو معا کہتے  ہیں چینی الاصل ہیں۔اور کہاجاتا ہے کہ معا نسل دراصل ان لوگوں کی اولاد ہیں جو اوائل میں چین آئے یعنی وہ عرب مسلمان جو تجارت اور تبلیغ کیلئے چین تشریف لائے یہاں پر رچ بس گئے مقامی لوگوں سے شادیاں کیں اور ان سے جو نسل چلی وہ معا کہلائے ۔  چینی زبان میں معاگھوڑے کو کہتے ہیں۔انکو معا کیوں کہتے ہیں اس کے بارے میں کوئی واضح جواب میرے سامنے نہیں آیا۔
چینگھائی مسلمانو کی اکثریت معا نسل سے تعلق رکھتے ہیں۔چین کے قانون کے مطابق ہر شخص کیلئے ایک چینی نام ضرور ہوتا ہے۔یعنی اگر کوئی مسلمان ہے تو اسکا چینی نام ضرور ہوگا۔اور ساتھ ساتھ اپنے مذہب و رواج کے مطابق اسلامی نام بھی رکھتے ہیں ۔ بہت سے مسلمان ایسے بھی دیکھے گئےجنکو اپنا اسلامی نام یاد نہیں تھا اور اسکی ایک وجہ تو ظاہر ہے کہ کاغذات میں چینی نام چلتا ہے اور یوں انکا چینی نام رہ جاتا ہے اور اسلامی نام بھول جاتے ہیں ۔بعض کو تو  اپنے  نام کے معنی بھی  یاد نہیں  تھے۔
یہاں ایک اور بات بھی قابل ذکر ہے اور وہ یہ کہ چونکہ چین ایک سوشلسٹ ملک ہے اور تبلیغ یہاں منع ہے بچے سکول میں نصابی کتب پڑھتے ہیں اور انہوں نے آگے جاکر مزید تعلیم حاصل کرنی ہوتی ہے۔پھر ان بچوں پر تعلیم کا بوجھ کافی ہوتا ہے اسلئے ایک تو  والدین کے ساتھ کم وقت گزارنے کو ملتا ہے اور دوسری طرف انکو موقع بھی نہیں ملتا کہ دین سے متعلق معلومات حاصل کریں اسلئے دین سے دور ہوجاتے ہیں اور صرف نام کے مسلمان رہ جاتے ہیں ۔یعنی وہ صرف یہ جانتے ہیں کہ ہم مسلمان ہیں باقی  اللہ اللہ خیر صلہ۔اور جب شادی کرتے ہیں تو اسمیں مسلمان لڑکی کی شادی غیر مسلم مرد کے ساتھ اور مسلمان مرد کی غیر مسلم عورت کے ساتھ ہوجاتی ہے اور آگے چل کر آپ بخوبی اندازہ  لگا سکتے  ہیں کہ انکے بچوں کا کیا ہوگا۔یہ آج کے چینی مسلمانوں کو درپیش سب سے بڑا چیلنج ہے۔اور کافی سارے چینی اس بات  پرپریشان ہیں ۔وہ اپنے بچوں کو مجبور نہیں کرسکتے کہ کسی مسلمان کے ساتھ شادی کرلیں کیونکہ محبت اندھی ہوتی ہے اور چینی معاشرہ آزاد معاشرہ ہے اسمیں ہر مرد اور عورت کو یہی حق حاصل ہے کہ اپنی مرضی کی شادی کر لے ۔میں نے بعض چینی خواتین دیکھی جو اپنی بیٹیوں کیلئے اچھا رشتہ ڈھونڈ رہی تھیں۔ایک مرتبہ ایک خاتون اپنی بیٹی کو ایک لڑکے سے ملانے کیلئے لائی جو مسلمان تھا اور وہ خاتون بھی مسلم تھی۔مگر لڑکی لڑکے کو ایک دوسرے میں کوئی خوبی نظر نہیں آئی اور ویسے ہی چلے گئے۔یہی حال بہت سارے مسلمانوں کا ہے اور وہ مجبور ہیں کہ حالات جو رُخ اختیا ر کرے ٹھیک ہے۔وہ بس یہی کہتے ہیں کہ چلو لڑکا اچھا ہو کام کرنے والا ہو۔بعض دفعہ ایسا بھی ہوا ہے کہ والدین کہتے ہیں چلو اگر بچی کی پسند ہے تو ٹھیک ہے بچی کو بَر تو  ملا  ہے۔یہ بھی کافی ہے۔
چینی مسلمانوں کی نئی نسل  اسلام سے بھی بیگانہ ہورہی ہے اور اپنے اقدار سے بھی یہ چیلنج  چین کے مسلمانوں کو عموماً اور ان نوجوانوں کو خصوصاً درپیش ہے جو اپنے علاقوں سے دور تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔بعض جگہ میں نے یہ بھی دیکھا ہے کہ لڑکی نے لڑکے کو پسند کرلیا ہے اور اسکاایک مسلم نام بھی رکھ لیا اور سمجھ گئی کہ یہ اب مسلمان  ہے اور بس اتنا  کافی ہے۔
چونکہ چین ایک سوشلسٹ ملک ہے اسی طرح  انکا  قانون  ہے جو کہ کسی مذہب نہیں بلکہ  سوشلسٹ نظام اور مینی فسٹو کے مطابق بنایا گیا ہے اور تمام شہریوں کو یکساں حقوق حاصل ہیں۔
   چین میں تما م مذاہب کا احترام کیا جاتا ہے اور انکے مذہبی مقامات کے تقدس کا بھی خیال رکھا جاتا ہے۔
         میں بیجنگ سے لنژو تک ہوائی جہاز کے ذریعے گیا تھا۔ویسے چین میں کرائے سستے ہیں آپ ٹرین کے ذریعے بھی جاسکتے ہیں اور ہوائی جہاز کے ذریعے بھی۔ٹرین کے ذریعے  لنژو تک بایس گھنٹے کا سفر ہے جبکہ ہوائی جہاز کے ذریعے یہ سفر ساڑھے تین گھنٹے میں  طے کیا جاسکتا ہے۔میں جب لنژو پہنچا تو موسم بہت ہی خوشگوارتھا ۔کیونکہ بیجنگ میں سخت سردی تھی اور یہاں موسم نسبتاً گرم تھا۔اسلئے مجھے بڑا مزہ آیا۔ہم لنژو سے خای شیوان بذریعہ موٹر گئے۔میرے میزبان  آئے تھے یعنی آسیہ کی بہن روقیہ،بھائی عیسی ٰاور بھابھی ۔جنہوں نے ہمیں ہوائی اڈے پر خوش آمدید  کہا ۔۔اور پھر ہم سب روانہ ہوگئے۔
            لنژو  تین چیزوں کیلئےمشہور ہے ۔ایک دریائے زرد۔۔کہ یہ شہر اسکےکنارے آباد ہے۔دوسرا لامیان کیلئے جوکہ ایک خاص قسم  کا چینی کھانا ہےاور یہ مجھےبھی بہت پسند تھا۔
لامیاں پکانے کیلئے سوئیاں بناکر گوشت کے سفید شوربے میں پکاتے ہیں جب پک جائے تو اسے کھانے کے برتن میں ڈال کر تازہ دھنیا اور چھوٹا  چھوٹا  ہوا  پیاز اسمیں  ملاتے ہیں اسی طرح سُرخ مرچ بھی۔اور اسکو کوائز کے ساتھ کھاتے ہیں۔یہ چین میں سستا ترین کھانا بھی ہے اور چین کا فاسٹ فوڈ بھی ہے۔
تیسری چیز جسکے لئے لنژو مشہور ہے وہ ہے لنژو سے نکلنے والا  ادبی رسالہ ،دو ژہ ، جسکے معنی ہیں ریڈر کے یعنی پڑھنے والا۔لنژو بھی پرانا شہر ہے اور اپنے چینی خصوصیات کے کھانو ں کیلئے مشہور ہے۔
لنژو کے بعد شہر خایشیوان آتا ہے ۔اس شہر میں ایک تو ریلوے سٹیشن  ہےاور دوسرے یہاں کے ریسٹورانٹ   بہت مشہور ہیں جن میں بہت ہی لذیذ اور مزیدار کھانے ملتے ہیں۔ خایشیوان سے ہم مینخہ گئے ۔
  مینخہ اپنے علاقے میں بہت مشہورہے ۔اسکے بازار بھی سادہ تھے اور میں اسمیں خوب گھوما پھرا۔یہاں کی اکثریت آبادی مسلمان ہیں۔یہاں پر مساجد بہت خوبصورت ہیں اور جب آپ نماز پڑھنے کیلئے جاتے ہیں تو مسجد آپکو لوگوں سے بھری ہوئی نظر آئےگی۔جسمیں جوان بوڑھے اور بچے سبھی شامل ہوتے ہیں۔مجھے یہاں کے مساجد بہت پسند آئے۔یہ دیکھنے سے تعلق رکھتے ہیں ۔یہاں کے لوگ دین سے خاص رغبت رکھتے ہیں ۔اسکا اظہار یہ مساجد ہیں جو آباد بھی ہیں اور خوبصورت بھی۔میں نے پہلے بھی عرض کیا ہے کہ یہاں مساجد عمارات کی کمپلیکس ہوا کرتی ہیں۔جسمیں مدرسے، معلمین اور طالبعلموں کیلئے  جگہیں بنائی جاتی ہیں۔چینگھائی کی مساجد میں ایک اور خاص بات انکے مینار ہیں جو بہت ہی محنت کے ساتھ بنائے جاتے ہیں اور یہ مینار چینی خصوصیات کی حامل ہوتی ہیں۔انکی ساخت بہت ہی دلچسپ،دلکش اور پروقار ہوتا ہے،ایسے ہی مینار میں نے شینینگ کی طرف جاتے ہوئے بھی دیکھیں تھیں۔اور لی اڑ بو جاتے ہوئے بھی سب مساجد کے ساتھ ایسے ہی مینار بنائے گئے تھے ۔
لی اڑبو
مینخہ سےایک دن ہم لی اڑبو چلے گئے ۔لی اڑبو بہت دور پہاڑوں کے دامن میں واقع ایک خوبصورت وادی ہے۔ یہاں پر گاؤں کی شکل میں  بھکری ہوئی آبادی ہے شہر کی طرح گنجان آباد نہیں ہے۔کہیں کہیں ایک گھر اور کہیں آٹھ دس گھر اکھٹے تعمیر کیے گئے ہیں ۔راستے بھی کوئی اتنے ہموار نہیں ہیں ۔ہم پرائیویٹ گاڑی میں گئے تھے۔ہماری سڑک کے احتتام پر  ایک خوبصورت کشادہ اور کافی وسیع رقبے پر پھیلا ہوا ایک مندر تھا۔
 جب ہم اس مندر کے قریب پہنچے تو اس کے بارے میں میرا خیال تھا کہ کسی بڑے رہنما  کا  گھر ہوگا یا  یہ حکومتی ریسٹ ہاؤس ہے جہاں پر بڑےاہلکار آرام کے دن گزارنے کیلئےآتے ہیں کیونکہ یہ ایسا  لگتا تھا کہ ابھی بنایا گیا ہو ۔اسکے رنگ تازہ تھے اور چینی کلاسیکی طرز عمارات کے شکل میں تعمیر کیا گیا ہے۔ لیکن قریب آنے پر معلوم ہو کہ یہ بدھ مندر ہے اور تقریباً چھ سو سال قبل تعمیر کیاگیا ہے۔
اسکو  دیکھتے  ہی بدھ مذہب کے بانی سدھارتھ مہاتما گوتم بدھ  اور اسکے پیروکار میرے ذہن میں آئے اور ساتھ ساتھ انکی گوشہ نشینی کیلئے ایسےدوراُفتادہ علاقو ں کا انتخاب کرنا جہاں سےعام لوگوں کا گزر نہ ہو۔تا کہ وہ خاموشی سے  گیان پاسکے۔اور مراقبے کرسکے۔اسکے ساتھ ساتھ میرے ذہن میں سوات کے وہ علاقے جو بدھ  مذہب کے مراکز تھے میرے آنکھوں کے سامنے گھومنے لگے۔مینگورہ کا بت کڑہ ہماراگاؤں برہ بانڈی،شنگر دارا کا سٹوپا۔۔۔۔یہ علاقے جو کبھی امن کے گہوارے اور علوم کے مراکز تھے اب وہاں پر ایک قیامت بپا تھی۔لوگ لوگوں کا خون پی رہے تھے صرف مذہب کے نام پر اس مذہب کے نام پر جو امن کا داعی ہے اور جسکا نام ہی امن ہے یعنی اسلام۔
               لی اڑبو کی پہاڑیاں  اور اس پر درختوں کے جھنڈ یعنی جسکو ہم یہاں جنگل بھی کہہ سکتے ہیں با لکل سوات کی طرح  ہیں مجھے تو بدھ مذہب کے ان راہبوں پر حیرت ہوتی ہے جنہوں نے ایسے جگہوں کا انتخاب کیا کہ سب ایک دوسرے کے ساتھ اتنے مماثل ہیں کہ بندہ انگشت بدنداں رہ جاتا ہے۔ 
یہاں پر تخت بھائی کےکھنڈرات کا  ذکر دلچسپی سےخالی نہ ہوگا۔کیونکہ یہاں پر بھی بدھ مت کے اثار پائے جاتے ہیں اور ان میں مراقبے کےہال  اور دیگر رہائشی عمارات قابل ذکر ہیں ۔انکے لئے بھی ایسے ہی خاموش جگہ کا انتخاب کیا گیا تھا۔
یہ جگہ  دیکھ کر بڑا مزہ آیا۔ہم نے اندر جانا  چاہا  لیکن وہاں پر مقامی رہائشی نے کہا کہ پروہت کہیں باہر گئے ہوئے ہیں اسلئے انکی اجازت کے بغیر اندر نہیں جاسکتے۔بہر حال یہ مندر باہر سے بہت خوبصورت نظر آرہا تھا ظاہر ہے کہ اندر بھی ٹھیک ہی ہو گا اور بتوں سے بھرا ہوگا کیونکہ یہاں پر بت ہی پڑے رہتے ہیں جو زیادہ تر بدھ کے ہوتے ہیں۔مہاتما بدھ خود بت پرست نہیں تھے وہ زیادہ تر مراقبہ میں ہوتے تھے یا  وجد میں آتے تھےاور اپنی دنیا  میں مگن رہتے تھے۔اسی طرح سقراط کے بارے میں بھی کہا جاتا ہے کہ وہ راستے پر جاتے ہوئےوجدمیں آجاتے اور ایک جگہ پر کھڑے ہوجاتے اور کبھی کبھار دو یا تین دنوں تک کھڑے رہتے تھے۔مغربی فلسفی بر ٹرنڈ رسل انکے بارے میں کہتے ہیں کہ انکے ایک دوست نے کہا کہ ہم ایک جگہ کھانے پر مدعو تھے ہم اپنے میزبان کے گھر جارہے تھے کہ وہ راستے میں رک گئے ۔کہتے ہیں کہ اگلے دن جب ہم آئے تو وہ جوں کے توں کھڑے تھے۔سقراط کہا کرتے تھےکہ مجھے آوازیں آتی ہیں اور میں فرشتوں کو دیکھتا ہوں۔ ۔کہنے کا مقصد یہ ہے کہ بدھ مت کے ماننے والوں اور خصوصا ً راہبوں اور بھکشوں نے ہمیشہ دور اُفتادہ جہاں عام لوگو کا زیادہ  آنا جانا  نہ ہو اور مشکل گزار راہوں میں دور پرسکون جگہوں کا انتخاب کیا۔تاکہ انکے مراقبے میں خلل واقع نہ ہو۔اسکا ثبوت یہ مندر ہے جہاں بدھ مت ماننے والوں کی آبادی کم ہے مگر یہ لوگ یہاں آئے تھے اور یہ مندر تعمیر کرگئے۔اسکے علاوہ سوات ،ٹیکسلا اور تخت بھائی کے کھنڈرات اور شہباز گڑھی اور مانسہرہ میں بڑے بڑے پھتروں پر انکے فرامین جو محبت دوستی اور ہمدردی پر مبنی تھے انکے انسان دوستی،ہمدردی کے منہ بولتے ثبوت ہیں ۔ان سب کا ذکرچینی سیاح فاھیان نے  اپنے سفر نامے یا یادداشتوں  میں بھی کیا ہے۔
بہر حال  لی اڑ بو سے واپسی پر میں نے مختلف گھر دیکھے جو مقامی کسانوں کے تھے۔یہ گھر مسلمانوں اور غیر مسلموں دونو ں کے تھے جو ایک دوسر ےکے قریب بنائے گئےتھے۔
   کسانوں کے گھر بہت سادہ اور پر وقار تھے ۔میں نے دیکھا کہ لوگوں نے  گھروں کے دیواروں پر مکئی کے بٹےلٹکائے تھے اور کہیں کہیں صحن میں مکئی کی فصل لا کر دھوپ میں سکھانے کیلئے رکھی تھی۔یہاں کا  ما حول بالکل پاکستان کے دیہات کی طرح لگ رہا تھا۔یہاں پر مجھے یہ بھی احساس ہوا کہ گاؤں اور گاؤں کی زندگی تقریبا چین اور پاکستان میں ایک جیسی ہے بلکہ اب تو مجھے یہ یقین ہے کہ ہر جگہ دیہاتی زندگی ایک جیسی ہے  ۔ بالکل ایک جیسی سادھی اور پُرسکون ہے۔گھروں کی بناوٹ اور ساخت کا فرق موجود ہے لیکن ان میں سادگی ایک جیسی ہے۔اور  لوگوں کا رہن سہن بھی ایک ہی جیسا لگتا ہے۔لوگوں میں ایک دوسرے کے ساتھ پیار محبت اور سادگی بھی ایک جیسی ہے۔مجھے چین کے کسانوں کے گھروں مینں یہ فرق زیادہ نمایاں آیا۔کہ یہاں کے کسانوں کے گھر الگ الگ اور اپنے کھیتوں اور زمینوں پر بنائے گئے ہیں۔
لی اڑبو سے واپسی پر ہم ایک گاؤں پہنچے  جسکا  نام مجھے یاد نہیں آرہا ہے۔جہاں پر ہم واپسی کیلئے ایک بس میں بیٹھ گئے۔بس خالی تھی اور ہم چارپانچ لوگ تھے اسلئے مقامی بس کی سواری سے بڑا مزہ آیا۔اور ہم نے اس سفر کا لطف اٹھایا۔مقامی لوگ بھی بس میں سوار ہوتے گئے۔اور اس طرح ہم ایک گھنٹے میں واپس پہنچ گئے۔
اس بس کی سواری سے مجھے یہ  اندازہ  ہوا کہ چینی لوگوں میں ایک خوبی یہ ہے کہ وہ کسی کے کام میں مداخلت نہیں کرتے اور یہ بات بہت سارے مسائل ختم کردیتی ہے۔مگر اس بات کے کچھ نقصانات بھی ہے ۔میں پہلے اپنی بات کی وضاحت کرنا مناسب سمجھوں گا اور وہ یہ کہ اگر آپ راستے میں کھڑے ہیں اور دوسرا کوئی بندہ جو گزرنا چاہتا ہو ۔آپ سے کبھی بھی نہیں کہے گا کہ راستہ دو بلکہ وہ اسوقت تک انتظار کرے گا کہ آپ خود وہاں سے ہٹ جائیں تو وہ گذر جائے گا۔اسی طرح اگر کوئی بس یا سبوے میں تین آدمیوں کی جگہ اسطرح گھیر لے کہ ایک جگہ بیگ رکھ لے اور دوسری جگہ اپنا پانی کا بوتل ۔تو میں نے دیکھا ہے کہ لوگ اکر کھڑے ہونگے مگر کوئی بھی نہیں کہےگا کہ بیٹھنے کیلئے جگہ دو۔ مجھے اس بات کا مشاہدہ کئی دفعہ ہوا۔تب مجھے یہ خیال آیا کہ یہ ان لوگوں کو سکھایا گیا ہے اور خوب سمجھاکر انکی تربیت ایسی کی گئی ہے۔چونکہ یہ بات مجھے عجیب بھی لگی لیکن چین نے اس انسانی فطرت پر قابو پاکر بہت سارے مسائل حل کرلئے ہیں اگر کبھی ایسا پاکستان میں ہو اور کوئی غلطی سے راستے  میں کھڑا ہو یا تین بندوں کی جگہ گھیر لے تو اس بیچارے کو کیا کچھ سننے کو نہیں ملےگا۔غرض جتنے منہ اتنی باتیں اور زیادہ قرین قیاس تو یہی ہے کہ کوئی اس کو اتنے مکے مارےگا کہ اسکو ہوش ہی ہسپتال میں آئےگا۔
دوسری بات یہ کہ کوئی چینی کبھی بھی کسی کے کام میں مداخلت نہیں کرتا۔کہ وہ اچھا کررہا ہے یا کوئی برا کام کررہا ہے۔ا سکے فائدوں میں سب  سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ اس کیوجہ سے آپس کے تعلقات خراب  نہیں ہوتے۔ اور لوگوں کے آپس میں ہمدردی زیادہ ہوتی ہے۔
  لی اڑ بو سے واپسی پر ڈنر پر ہم یو سف کے مہمان بنے۔یوسف بیجنگ میں میرے ساتھ ملا تھا۔اور ہماری دوستی بڑھی تھی۔اور انہوں نے میری دعوت کی تھی ۔ڈنر کیلئے ہم خایشیوان گئے تھے۔اور ایک روایتی چینی ریسٹورانٹ میں کھانا کھایا ۔یہاں پرہمارے میزبان نے بہت سے چینی کھانوں کیلئے آرڈر دیا تھا جسمیں ایک خوگوہ تھا۔یہ چینی روایتی کھانا ہے جسمیں ایک خاص قسم کا شوربہ یا سالن جیسا مائع آگ پر رکھتے ہیں اور نیچے سے آگ جلاتے ہیں اسکے ساتھ بہت باریک کاٹا ہو گوشت چھوٹا یا بڑا اور سبزیاں  لاکر رکھ دیتے ہیں اور آپ اسے پکنے پر کھاتے جائے۔یہ سادہ مگر بہت خوشذائقہ ہوتا ہے اور آپ اپنی مرضی سے اسکا ذائقہ بنا سکتے ہیں ۔میں خود یہ اور دابنجی (پشتو میں خانک یا مجمہ ) بڑے شوق سے کھایا کرتا تھا ۔بھر حال خایشیوان کے ریستورانت کا کھانا مجھے یاد رہےگا۔ ۔خایشیوان  میں ٹرین سٹیشن بھی ہےجہاں سے میں شی ان چلا گیا تھا۔
 
  



شی آن
 شی آن کے معنی ہیں مغربی امن ۔اسکا  پرانا  نام  چانگ ان ہے یہ صوبہ شانسی  کا صدر مقام ہے۔اور چین کے چار قدیم صدر مقاموں میں سے ایک ہے۔یہ شاہراہ ریشم کا آخری منزل بھی ہے۔۱۹۹۰ کے بعد یہ وسطی اور شمال مغربی علاقوں میں نشاۃ ثانیہ کا مرکز ٹہرا۔اور ان علاقوں کا ثقافتی،صنعتی،اور تعلیمی مرکز  کے طور پر بن کر اُبھرا۔اسمیں قومی سلامتی،اور تحقیق و ترقی کی سہولیات بھی مہیا کیں گئیں ہیں۔اسمیں تیسری صدی کے چین شی خوانگ کے قبرستاں میں تیراکوٹا کے فوجیوں کے مجسمے بھی دریافت کئے گئے   ہیں۔
    میرے پاس چونکہ وقت زیادہ نہیں تھا۔اسلئے میں شی ان میں صرف ایک دن رہ سکا ۔اور ایک دن میں میں نے کتنی جگہیں دیکھ سکتا تھا اسکا اندازہ آپ بخوبی لگاسکتے ہیں۔بہر حال شی ان کو دیکھنے کیلئے کافی وقت چاہیے۔اگر زندگی نے وفا کی تودوبارہ ضرور جاکے دیکھوں گا اور اس پر الگ کتاب لکھی جاسکتی ہے۔کیونکہ ایک تو یہ قدیم چین کا دارلخلافہ ہے۔اور جدید چین کی ثقافت کا مرکز۔
  شی ان کو ا یک دن صبح سویرے ریل گاڑی کے ذریعےہم پہنچ گئے۔خایشیوان میں رات دس بجے ہم ریل گاڑی میں بیٹھ گئےتھےاور اگلے دن صبح  نو بجے کے قریب ہم شی ان میں تھے۔شی ان کا ریلوے سٹیشن بھی دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔جب ہم باہر آئے تو اپنا سامان یعنی بیگ وغیرہ ہم نے ریلوے سٹیشن پر متعلقہ دفتر میں رکھوادئے۔ ولدیینی ہمیں لینے کیلئے سٹیشن پرموجود تھا۔سٹیشن سے ہم سیدھے شی ان کے تاریخی مسجد کے دیکھنے کیلئے چلے گئے۔یہ مسجد بہت ہی پر وقاراورچینی  فن تعمیر کا شاہکار ہے۔ یہ مسجد  عمارات کا ایک مجموعہ ہے۔اسمیں مسجد کا ہال،عجائب گھر،کانفرنس روم،وضو بنانے کیلئے اودس خانے،حاجت خانے،غسل خانے،صحن،چبوترے اور مدرسہ ہیں۔یہ مسجد چینی فن تعمیر کا شاہکار ہے۔
   مسجد کا ہال کافی بڑا ہے اور ہزار تک کی نمازیوں کی گنجائش اسمیں موجود ہے۔مسجد کے چھت کو خوبصورت بنایا گیا ہے اور اس پر اسماء حسنہ تحریر کئے گئے ہیں۔مسجد کی محراب بہت خوبصورت ہے ۔اور لکڑی کا استعمال بہت کیا گیا ہے ۔اس مسجد کے لکڑی کے دروازے دیکھنے سےتعلق رکھتے ہیں۔
       جب آپ مسجد میں داخل ہوتے  ہیں  تو اندر  چین کا  روایتی  بہت  بڑا  دروازہ  بنایا گیا ہے جو وقت کے ساتھ ساتھ اب پرانا  ہوگیا ہے۔اسلئے اسکے گرد ایک پٹی لگائی گئی ہے کہ کوئی  اسکے اندر سے نہ گزرے تاکہ کوئی چیز گزرنے والے پر نہ گرے۔بہر حال یہ دروازہ اپنےعظمت رفتہ کی داستان سرا ہے۔اسکے بعد ایک وسیع  صحن ہے جسمیں چینی سٹائل کے چبوترے بنائے گئے  ہیں۔اذان کیلئے ایک خوبصورت مینار تعمیر کیا گیا ہے۔اس مسجد کےلکڑیوں پر جو نقش و نگار بنائے گئے ہیں وہ اس دور کے ماہرین کی اپنے فن  میں مہار ت کے منہ بولتے ثبوت ہیں۔
        مسجد کے  عجائب گھر میں مسجد سے متعلق معلومات،مسجد کی بنیادی منصوبہ بندی کا نقشہ یعنی ماسٹر پلان،اور دیگر نوادرات رکھی گئیں ہیں۔
  اسکے علاوہ دوسری مسجد حسن کی مسجد ہے۔مسجد سے جب ہم باہر آئے تو ساتھ ایک بازار بنایا گیا ہے۔جہاں پر آپ مختلف چیزیں جو شی ان میں بنایی جاتی ہیں یا ااثار قدیمہ سے تعلق رکھنے والی اشیا رکھی گئی ہیں۔اسمیں بہت ساری نوادرات موجود ہیں۔جنہیں آپ خرید سکتے ہیں۔
 باہر چینی کھانے بھی آپکو مل سکتے ہیں۔خصوصا ً ان کے کھانے۔یہاں سے ہم پھرحسن کی مسجد کے طرف گئے۔یہاں سے پھر شہر کے طرف چل پڑے اور پہلے ہم گھنٹہ گھر گئے۔یہ چینی فن تعمیر کی خوبصورت نمائندہ عمارت ہے۔اسکے ارد گردسڑ کیں تعمیر کیں گئیں ہیں۔ اسکے ساتھ ہم ایک بہت مشہور اور بڑے پلازے میں چلے گئے۔جہاں پر خریداری کی جاسکتی ہیں۔
اسکے علاوہ ہم ایک پولی ٹکنک سکول بھی گئے۔اور دیگر عمارات بھی دیکھے۔ گھنٹہ گھر کے حسن میں رات کو مزید اضافہ ہوجاتا ہے جب وہاں پر بجلی کے قمقمے جگمگا  اٹھتے ہیں۔پھر ایک پگوڈا  دیکھنے کیلئے بھی گئے۔
              رات کے دس بجے کی ریل گاڑی میں ہم نے بکنگ کی تھی ۔اور یہاں سے ہمارا اگلا پڑاؤ بیجنگ تھا۔جہاں پر مزید دو دن ٹہر کر پھر مجھے پاکستان روانہ ہونا تھا۔ہم نے ولدینی سے اجازت لے لی اسے پاکستان آنے کی دعوت دی۔اور یوں شی ان میں یہ دن میرا مصروف ترین دن تھا۔جسمیں کم سے کم وقت میں ہم  نے بہت سی جگہیں دیکھ لیں۔شی آن سے بیجنگ پہنچ کر رات گزارنے کے بعد ہم تیانجن چلے گئے ۔ اس دن برفباری ہورہی تھی سخت سردی تھی اور چین میں اپنی آخری رات تیانجن میں گزار کر واپس بیجنگ آیااور وہاں سے پاکستان کیلئے روانہ ہوگیا۔

کچھ’’پریوں کے دیس کے بارے میں‘‘
 ہمارےعوامی (فوک)داستانوں میں چین کی شہزادیاں اور پریاں بہت مشہور ہیں۔اپنے حسن نزاکت اور ادا کیلئےپرستان دیکھنا ہرکسی کا خواب ہوتا ہے۔اور جب آپکو جاکر واقعی وہ سب کچھ دیکھنے کو ملتا ہے تو حیرت ہوتی ہے۔چین واقعی پریوں کا دیس ہے۔قدیم میں اگر یہ وطن پریوں کیلئے مشہور تھا تو آج بھی اپنے محنتی عوام اور رہنماؤں کی محنت شاقہ کیلئے مشہور ہے۔اور یہ اب بھی  پریوں کا مسکن ہے۔
                 چین ہمیشہ سے پر اسرار رہا ہے اور رہے گا۔علم و فن کیلئےچین قدیم میں بھی مشہور تھا ۔یہاں کے فلاسفہ  نے بڑا نام کمایا ۔چینی معاشرہ ہمیشہ سے علم کا قدردان رہا ہے۔یہاں کے لوگ قدیم میں بھی آزادخیا ل تھے ۔اور آج بھی انکا معاشرہ آزادخیال اور علم کا قدر دان ہے۔
 میں جب چین آیا تو ظاہر ہے کہ میں نے بھی بہت کچھ سنا تھا۔اور جب اپنی آنکھوں سے بھی بہت کچھ دیکھا تو واقعی متأثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔اچھائیاں اور برائیاں ہر معاشرے میں ہوتی ہیں۔اور ہر انسان کے سوچنے اور تولنے کا انداز اپنا اپنا ہے۔میں چونکہ ریڈیو سے تعلق رکھتا ہوں ۔اور ریڈیو والوں کی تربیت ایسی ہوتی ہے کہ حقائق کو عام لوگوں کیلئے انکی زبان میں بیان کرتے ہیں اسمیں تکلفات اور موٹے موٹے ادبی ثقیل الفاظ  سے اجتناب کرتے ہیں۔یہی حال میرا بھی ہے۔۔یہ کتاب ادبی کتاب نہیں ہے۔جو کچھ میں نے دیکھا اور مشاہدہ کیا وہ تحریرکیا ہے۔                                         
میں نے روزنامچہ بھی نہیں لکھا ہے۔کہ یہ ہوا اور وہ ہوا۔بلکہ اسمیں چینی قوم اسکے کردار،ثقافت اور حقائق کا جائزہ لیا ہے۔کافی سارے خیالات میں جہاں میں نے اپنے ملک کے ساتھ موازنہ کیا ہے شایدآپ میرے ساتھ اتفاق نہ کریں۔
     چین کے بارے بہت زیادہ  تحریری و بصری مواد دستیاب ہے اورآپ اس سے استفادہ کرسکتے ہیں۔لیکن میں نے جو دیکھا ہے اسے بیان کیا ہے۔اور بہت کچھ کہنے سے  رہ گیا ہے۔
میں چونکہ مسلمان ہوں اسلئے مسلمانو ں کی   زندگی کے بارے زیادہ کچھ بتایا ہے۔اسکی وجہ ایک تو یہ ہے کہ چونکہ چین سوشلسٹ ملک ہے اسلئے وہاں کے مسلمانوں  کے بارے میں بہت کچھ ابہام پائے جاتے ہیں۔اسلئے میں نے مسلم کی زندگی کو غور سے دیکھا ہے انکا مشاہدہ کیا ہے۔میں مسلمان ہوں اور انکے ساتھ میری ہمدردی یا وابستگی فطرتی بات تھی ۔دوسری اہم بات یہ ہے کہ اس سے وہ غلط فہمی  بھی دور ہو گی جو چینی مسلمانوں کے بارے میں پائی جاتی ہے۔وہ اسلام سے اتنا ہی محبت کرتے ہیں جتنا کوئی عرب یا پاکستانی کرتاہےور اہم بات یہ ہے کہ ایک سوشلسٹ ملک میں جہاں مذہب پر پابندی ہو تو ایک مسلمان کیسے مسلمان رہ سکتا ہے۔اس کتاب میں اسکا جواب موجود ہے کہ چین بے شک سوشلسٹ ملک ہے۔مگر اسے کہتے ہیں چینی ساخت کی سوشلزم۔۔۔ اور آپ حیران ہونگے کہ چینی مسلمان اپنے مذہب کے معاملے میں آزاد ہیں۔جو مسائل انکو درپیش ہیں انکا ذکر بھی میں نے کیا ہے۔کہ انکو آج کونسے چیلنج درپیش ہیں۔چین میں نہ صرف مسلمانوں بلکہ تمام مذاہب کے ماننے والوں کو مذہبی آزادی حاصل ہے۔
      اس کتاب میں میں نے کسی پر تنقید نہیں کی ہے اور نہ اسکی ضرورت ہے میں  نے  جو دیکھا ہے اسے بیان کیا ہے۔میں ریڈیو جرنلسٹ ہوں اور ہر چیز کو اسی نظر سے دیکھا ہے۔
قاری سے التماس ہے کہ    کتاب ہٰذا کے بارےمیں اپنی  آراء  سے ہما ری رہنمائی ضرور فرمائے۔اور ہماری کوتاہیاں  معاف فرمائے۔

   شکریہ
   رشید احمد




کچھ اپنے بارے میں
میرا نامرشید احمد اوروالد  کا نام فضل معبود ہے۔ہمارے گاؤں کانام برہ بانڈی ہےیہ سوات کے علاقہ نیک پی خیل تحصیل کبل میں واقع ہے۔ہمارا گاؤں پہاڑوں کے دامن میں واقع ہے یہاں سےایک بڑی سڑک گزرتی ہےجو  مٹہ کی طرف جاتی ہے اورشور،گٹ پیوچار،سخرہ اور بیہا کی طرف جاتی ہے۔یہ علاقہ تاریخی اور جغرافیائی  طور پر بھی بہت اہم رہا ہے۔
                میں نے ابتدائی تعلیم اپنے گاؤں کے سکول میں حاصل کی جو کہ ایک قسم کا خانہ بدوش سکول تھا کبھی مسجد اور کبھی حجرے میں قیام پذیر ہوتا  ۔پہلی دو جماعتیں ہم نے اسی طرح گھوم گھوم کر گزاریں تھیں۔ٍسوات ریاست تھا جو کہ پاکستان کے بننے سے قبل قائم ہوگیا تھا۔
   میں نے ابتدائی تعلیم گاؤں کے سکول سے حاصل کی ۔اسکے بعد گورنمنٹ  ہائی سکول ڈھیریٔ سے میٹرک پاس کیا۔اور ایٖف ایس سی گورنمنٹ ڈگری کالج مٹہ سے پاس کیا۔بی ایس سی کی ڈگری  گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ جھانزیب کالج سوات سے  اور ایم ایس سی کی ڈگری گومل یونیورسٹی ڈی آئی خان سےحاصل کی لی۔اور ایم فل پشاور یونیورسٹی کر رہا تھا تحقیق اور کورس مکمل کئے تھےکہ ریڈیو پاکستان سے بطور پروڈیوسر  منسلک ہوگیا ۔ میں نے ریڈیو پروگرام کے سارے اصناف اور سارے شعبوں میں کام کیا ہے۔ڈرامہ،موسیقی،تقاریر،دستاویزی پروگرام،فیچر،کرنٹ افیرز( حالات حاضرہ ) ،مذہبی اوردیہاتی بھائیوں کیلئے پروگرام ،غرض جتنے بھی فارمیٹ ہیں سب پر کام کیا ہے۔میں نے ریڈیو پاکستان پشاور ،تربت،ایبٹ آباد،اور کرنٹ افیرز چینل اسلام آباد میں بھی خدمات انجام دی ہیں۔اور دو سال کیلئے (۲۰۰۷ سے ۲۰۰۹)بیجنگ میں چائنا ریڈیو انٹر نیشنل میں اپنے فرائض سر انجام دیتا رہا ہوں۔ اور یوں زندگی کا یہ سفر ابھی جاری ہے۔







ترتیب و تفصیل
نمبر شمار    مضمون      صفحہ
۱     چین میں آمد     ۴
۲     بیجنگ میں آمد      ۷
۳     پہلا کام       ۱۰
۴     دفتر کا ماحول      ۱۴
۵      بیجنگ        ۱۸
۶     قدامت اور جدیدیت کا سنگھم   ۲۵
۷     دفتر کے لوگ     ۳۳
۸      دوست و احباب     ۴۹
۹     بیجنگ میں پاکستان کا سفارتخانہ    ۵۸
۱۰     چین میں مساجد      ۶۴
۱۱     چینی نوجوان     ۶۹
۱۲     ووچینگ      ۷۵
۱۳      ایک دن دیوارِ چین پر     ۷۷
۱۴     ارومچی       ۸۲
۱۵     ترپان کی امین مسجد     ۸۹
۱۶     کاشغر       ۹۲
۱۷     عید گاہ مسجد اور خواجگان کا مقبرہ  ۹۹
۱۸     دو ہفتے امریکہ میں      ۱۰۲
۱۹     چینگھائی کی سیر      ۱۰۹
۲۰     چینگھائی      ۱۱۴
۲۱     شی آن      ۱۲۴
۲۲     کچھ پریوں کے دیس کے بارے میں   ۱۲۷
۲۳     کچھ اپنےبارے میں     ۱۳۰